کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 453
اس موضوع کی بعض دیگر روایات بھی ہیں، لیکن وہ بھی ضعیف ہیں، ان سب کا تذکرہ باعثِ طوالت ہوگا، لہٰذا انھیں ’’نصب الرایۃ‘‘ (۱/ ۳۷ تا ۴۲) ’’التلخیص الحبیر‘‘ (۱/ ۱۱۳، ۱۱۷، ۲۷۵) اور دیگر کتب میں دیکھا جاسکتا ہے۔ البتہ ایک حدیث صحیح بھی ہے، جس کے مفہوم پر قیاس کرتے ہوئے خون کو ناقضِ وضو قرار دیا گیا ہے، یعنی اس میں یہ تو مذکور نہیں کہ عام خون ناقضِ وضو ہے، بلکہ اس میں بات تو کوئی اور ہے، لیکن قائلینِ نقض نے اس کے مفہوم پر قیاس کرتے ہوئے عام اعضاے جسم سے نکلنے والے خون کو بھی ناقض کہا ہے۔ وہ حدیث پہلے بھی گزر چکی ہے، جو صحیح بخاری و مسلم، سنن اربعہ اور دیگر کتب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، جس میں وہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض گزار ہوئیں کہ میں مرضِ استحاضہ میں مبتلا ہوں اور خون جاری رہنے کی وجہ سے پاک نہیں رہتی تو کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لَا، اِنَّمَا ذَٰلِکَ عِرْقٌ، وَلَیْسَتْ بِالْحَیْضَۃِ )) ’’نہیں، یہ ایک رگ ہوتی ہے، یہ خونِ حیض نہیں ہوتا۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بتایا کہ جب ایامِ حیض ہوں تو نماز چھوڑ دیں اور جب ان کے برابر ایام گزر جائیں، تب غسل کرلیں۔ ہشام کہتے ہیں کہ میرے والد (عروۃ) نے کہا: ’’پھر آیندہ ایامِ حیض آنے تک ہر نماز کے ساتھ وضو کر لیا کریں۔‘‘[1] اس حدیث کے الفاظ: (( اِنَّمَا ذٰلِکَ عِرْقٌ )) ’’یہ خونِ حیض نہیں، بلکہ ایک رگ ہے۔‘‘ اِن پر عام خون کو قیاس کیا گیا ہے، چو نکہ ایسی عورت کو ہر نماز کے ساتھ از سرِ نو وضو کرنے کا حکم ہے تو ان کے نزدیک اس کا خون ہی ناقضِ وضو ہے اور اسی خون پر قیاس کرتے ہوئے جسم کے ہر حصے سے نکلنے والے خون کو ناقض ہی ہونا چاہیے۔ یہ ہے وجۂ استدلال لیکن یہ محض قیاس ہے، جسے علامہ ابن عبدالبر نے ’’التمہید شرح موطأ الإمام مالک‘‘ میں ضعیف کہا ہے اور علا مہ ابن حزم رحمہ اللہ نے تو
[1] صحیح البخاري مع الفتح، رقم الحدیث (۲۲۸) صحیح مسلم مع شرح النووي (۲؍ ۴؍ ۱۶، ۱۷) صحیح سنن أبي داود، رقم الحدیث (۲۵۸) صحیح سنن الترمذي، رقم الحدیث (۱۰۸) صحیح سنن النسائي للألباني (۱؍ ۶) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۶۲۴) سنن الدارمي، رقم الحدیث (۷۷۹)