کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 451
سے نکلے ، تھوڑا ہو یا زیادہ ،ٹھہرا ہو یا بہہ نکلے، حلق سے نکلے یا مسوڑھوں سے، تھوک پر اس کا رنگ غالب ہو یا نہ ہو، سینگی یا فصد لگو انے سے نکلے یا زخم آ نے سے یا کسی زخم کے دکھ جا نے سے، انجکشن کے ذریعے سے سرنج بھر کر خون نکالا جا ئے یا سرنج سے ٹیکا لگانے کے بعد اس جگہ سے کوئی ایک دوقطرے خون نکل آئے؛ ان تمام شکلوں میں خون کے بارے میں حکم معلوم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس بات کا پتا چلایا جائے کہ بھلا خون ناقضِ وضو ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں بنیادی بات یہ ہے کہ جن احادیث میں خون کے ناقضِ وضو ہونے کا ذکر ہے ، وہ ضعیف ہیں، لہٰذا ناقابلِ حجت ہیں۔ ایسی صورت میں حکم براء تِ اصلیہ ہی پر رہے گا کہ وضو نہیں ٹوٹتا۔ اس پر مستزاد یہ کہ متعدد واقعات سے پتا چلتا ہے کہ صحابہ و تابعین خون نکلنے سے وضو نہیں کیا کرتے تھے، جو عدمِ نقض کے قائلین کی تائید ہے۔ چنانچہ نکسیر کے سلسلے میں جو احادیث وآثار گزر ے ہیں ، ان کا ضعف اور حجیت کی عدمِ صلاحیت ذکر کی جاچکی ہے، لہٰذا انھیں دہرانے کی ضرورت نہیں۔ البتہ بعض دیگر روایات میں سے ایک سنن دارقطنی میں حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: (( اَلْوُضُوْئُ مِنْ کُلِّ دَمٍ سَائِلٍ )) [1] ’’ہر بہنے والے خون سے وضو ہے۔‘‘ اس روایت کو ’’نصب الرایۃ‘‘ میں نقل کر کے علامہ زیلعی حنفی نے امام دار قطنی کا قول ذکر کیا ہے کہ اس کی سند کے ایک راوی عمر بن عبد العزیز ہیں، جن کا حضرت تمیم رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں اور دوسرے راوی یزید بن خالد اور تیسرے یزید بن محمد دونوں ہی مجہول ہیں، تیسری علت ایک مدلس راوی بقیہ کا عنعنہ ہے۔[2] انہی الفاظ کی ایک اور روایت مروی ہے، جس کے بارے میں خود امام ابن عدی نے کہا ہے کہ اس روایت کو ہم صرف احمد بن فرج کے حوالے سے جانتے ہیں، جب کہ وہ ایسا راوی ہے، جس کی روایت قابلِ حجت نہیں ہے، اگرچہ بعض محدّثین نے اس کی ثوثیق بھی کی ہے۔[3] نکسیر کے ضمن میں ایک روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی بیان کی جاچکی ہے جو
[1] دیکھیں: نصب الرایۃ (۱؍ ۳۷) سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ (۴۷۰) ضعیف الجامع، رقم الحدیث (۶۱۷۶) [2] تحقیق مشکاۃ المصابیح (۱؍ ۱۰۸) [3] نصب الرایۃ (۱؍ ۳۷، ۳۸ مع حاشیہ)