کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 45
’’تم میں سے کوئی جب جنابت کی حالت میں ہو تو کھڑے پانی میں (داخل ہوکر) غسل نہ کرے۔ سننے والے لوگوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (راویِ حدیث) سے پوچھا: اے ابوہریرہ! تو پھر وہ آدمی کیسے نہائے؟ تب انھوں نے طریقہ بتاتے ہوئے فرمایا: وہ پانی میں سے (چلو وغیرہ بھر کر) نکالے (اور باہر بیٹھ کر نہائے)۔‘‘ 2۔ سنن ابی داود اور مسند احمد کی حدیث کے الفاظ یہ ہیں: (( لَا یَبُوْلَنَّ اَحَدَکُمْ فِی الْمَآئِ الدَّائِمِ وَلَا یَغْتَسِلُ فِیْہِ مِنَ الْجَنَابَۃِ )) [1] ’’تم میں سے کوئی شخص کھڑے پانی میں ہرگز پیشاب نہ کرے اور نہ اس میں جنابت کی حالت میں غسل کرے۔‘‘ یہاں کھڑے پانی میں غسلِ جنابت سے روکا گیا ہے، جس سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ غسلِ جنابت سے چونکہ وہ پانی خراب ہو جاتا ہے اور دوسرے کے غسل و وضو کے قابل نہیں رہتا، بلکہ خود ایسے آدمی کو طہارت کا فائدہ نہیں دے گا، کیوں کہ اس کے پانی میں داخل ہوتے ہی وہ پانی اپنی طہوریت کھو دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے پانی سے غسلِ جنابت سے منع فرمایا ہے، اسی حدیث کی بنا پر امام ابو یوسف اور ایک غیر معروف بلکہ متروک روایت میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے مستعمل پانی کو نجس قرار دیا ہے۔ [2] غالباً امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے تو اس رائے سے رجوع کر لیا تھا اور صرف امام ابو یوسف اکیلے ہی اس کے قائل رہ گئے تھے، یہی وجہ ہے کہ علامہ ابن رشدنے ’’بدایۃ المجتہد‘‘ میں یہ رائے امام ابو یوسف کی طرف منسوب کرتے ہوئے لکھا ہے: (( شَذَّ اَبُوْ یُوْسُفَ۔۔۔ فَقَالَ: اِنَّہٗ نَجِسٌ )) [3] ’’امام ابویوسف ایسے پانی کی نجاست کی رائے میں شاذ اور تنہا رہ گئے ہیں۔‘‘ اختلاف اس کے مطہر ہونے میں ہے کہ اس سے صرف غسل و وضو نہیں کیا جاسکتا اور دوسرے
[1] صحیح سنن أبي داود (۱؍ ۱۶) رقم الحدیث (۶۳) صحیح سنن النسائي، رقم الحدیث (۵۷) المنتقیٰ مع النیل (۱؍ ۲۲) صحیح الجامع، رقم الحدیث (۷۵۹۰) [2] المغني (۱؍ ۲۲) [3] بدایۃ المجتھد (۱؍ ۴۰)