کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 447
امام بیہقی رحمہ اللہ کے بقول یہ بھی تب ہے، جب کوئی شخص جان بوجھ کر قَے کر لے۔ خود بہ خود قَے آنے سے تو روزہ بھی نہیں ٹوٹتا، وضو کیسے ٹوٹ جائے گا؟ وہ لکھتے ہیں کہ اس حدیث کی سند اس قدر مضطرب ہے کہ یہ حجت ہی نہیں بن سکتی اور صحیح ثابت بھی ہو تو اسے صرف عمداً قَے کر نے پر محمول کیا جائے گا۔[1] ثانیاً: قَے کے ناقضِ وضو ہونے کے قائلین جو یہ کہتے ہیں: 1 وہ معدے سے ہو ۔ 2منہ بھر کر ہو ۔ 3 ایک ہی مرتبہ اتنی ہو۔ تو یہ ناقضِ وضو ہے، جب کہ ان حدود و قیود یا شرائط کا سرے سے کسی بھی حدیث میں ذکر نہیں ہے۔ ہاں امیر صنعانی نے ’’سبل السلام‘‘ میں حضرت عمار رضی اللہ عنہ سے مروی کسی روایت کی طرف اشارہ کیا ہے، جس میں منہ بھر کر قَے کے الفاظ ہیں اور ساتھ ہی لکھ دیا ہے کہ وہ روایت ضعیف ہے۔[2] ثالثاً: ان احادیث میں سے کسی ایک میں بھی مذکور نہیں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہو کہ جو شخص قَے کرے، وہ وضو کرے اور نہ کسی حدیث میں یہ وضاحت ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو صرف قَے کرنے کی وجہ ہی سے کیا ہو کہ اس سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم با وضو ہوں اور قَے آنے سے وضو ٹوٹنے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا ہو۔ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے ’’المحلّیٰ‘‘ میں قَے کو ناقضِ وضو قرار دینے کی بڑی سختی سے تردید کی ہے۔[3] اس ساری تفصیل سے معلوم ہوا کہ قے آنے سے وضو تو نہیں ٹوٹتا، ہاں یہ الگ بات ہے کہ کوئی وضو کر لے تو بہر حال یہ بہتر ہے، کیوں کہ اس میں فضیلت بھی ہے اور احتیاط بھی۔ 8۔نکسیر: وہ اشیا جن کے ناقضِ وضو ہونے کی کوئی صحیح دلیل نہیں، ان میں سے آٹھویں چیز نکسیر ہے،
[1] نیل الأوطار (۱؍ ۱؍ ۲۲۲) و الإرواء (۱؍ ۱۴۸) [2] سبل السلام (۱؍ ۱؍ ۶۷) نیل الأوطار (۱/ ۱۲۲) [3] المحلی لابن حزم (۱؍ ۱؍ ۲۵۵۔ ۲۵۸)