کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 446
میں ذکر کی جائے گی کہ یہ ناقضِ وضو ہے یا غیر ناقض۔ زیرِ بحث موضوع یعنی قے کے ناقضِ وضو ہونے کے بارے میں ایک اور حدیث ہے، جو صحیح بھی ہے اور مرفوع بھی، مگر وہ صریح نہیں، چنانچہ ترمذی اور مسند احمد میں حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: (( إِنَّ النَّبِيَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم قَآئَ فَأَفْطَرَ فَتَوَضَّأَ )) [1] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قَے کی، روزہ افطار کیا اور پھر وضو کیا۔‘‘ لیکن اس حدیث کے الفاظ محفو ظ نہیں، جیسا کہ ’’تحفۃ الأحوذي‘‘ میں تفصیل مذکور ہے، جبکہ یہی حدیث سنن ابو داود، نسائی، ابن ماجہ، منتقیٰ ابن جارود، صحیح ابن حبان و ابن مندہ، سنن دار قطنی، سنن بیہقی، معجم طبرانی اور مستدرک میں ایک دوسرے طریق سے بھی مروی ہے، جس کے محفوظ الفاظ یہ ہیں: (( إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم قَآئَ فَأَفْطَرَ )) [2] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قے کی اور پھر روزہ افطار کیا۔‘‘ مسند احمد کے الفاظ ہیں: (( إِسْتَقَآئَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم فَأَفْطَرَ )) [3] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قَے کی اور روزہ افطار کر لیا۔‘‘ اس حدیث سے بھی قَے کے ناقضِ وضو ہونے پر استدلال کیا جاتا ہے، لیکن اس حدیث میں یہ دلالت کہاں ہے؟ اوّلاً: زیادہ سے زیادہ یہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل ہے، جو کسی چیز کے وجوب پر دلالت نہیں کرتا۔ وجوب کے لیے کوئی خاص دلیل چاہیے، جو کوئی بھی صحیح نہیں اور اس فعل سے زیادہ سے زیادہ یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اسوۂ حسنہ کو دیکھتے ہوئے قَے کرنے کے بعد وضو کرنا مشروع ومستحب ہے، لیکن یہ واقعہ وجوب کی دلیل نہیں بن سکتا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا اختیار بھی استحباب ہی ہے۔[4]
[1] سنن الترمذي مع التحفۃ (۱؍ ۲۸۷) المنتقی مع النیل (۱؍ ۱؍ ۲۲۱) صححہ الألباني في الإرواء (۱؍ ۱۴۷) [2] صحیح سنن أبي داود، رقم الحدیث (۲۰۸۵) صحیح سنن الترمذي، رقم الحدیث (۵۷۷) سنن الدارمي، رقم الحدیث (۱۷۲۸) موارد الظمآن، رقم الحدیث (۹۰۸) [3] إرواء الغلیل (۱؍ ۴۷) و نیل الأوطار (۱؍ ۱؍ ۲۲۲) و تحفۃ الأحوذي (۲۸۸، ۲۸۹) [4] مجموعۃ الرسائل الکبریٰ بحوالہ تمام المنۃ (ص: ۱۱۲)