کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 445
نہیں ہے۔ امام شافعی، امام مالک، شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہم اللہ اور دیگر محققین کا یہی مسلک ہے کہ قے ناقضِ وضو نہیں ہے، جب کہ حنابلہ کے نزدیک مطلقاً اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک بعض شرائط کے ساتھ یہ قَے بھی ناقضِ وضو ہے۔ قَے کے ناقضِ وضو ہونے پر جن احادیث سے استدلال کیا جاتا ہے، ان میں سے پہلی تو سنن ابن ماجہ، دارقطنی اور مسند احمد میں مروی ہے، جس میں اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتی ہیں: (( مَنْ أَصَابَہُ قَیْئٌ أَوْ رُعَافٌ أَوْ قَلَسٌ أَوْ صَدَیٌٔ فَلْیَنْصَرِفْ فَلْیَتَوَضَّأْ ثُمّ لْیَبْنِ عَلٰی صَلَاتِہِ، وَھُوَ فِيْ ذٰلِکَ لَا یَتَکَلَّمُ )) [1] ’’جسے قے آئے یا نکسیر پھوٹے یا ڈکار کے ساتھ کھانا منہ میں آجائے (یعنی استفراغ ہو) یا مذی نکل آئے تو اسے چاہیے کہ پھر جائے اور جاکر وضو کرے اور جہاں سے نماز چھوڑی تھی، وہیں سے آکر شروع کر لے اور اس دوران میں کسی سے کوئی بات نہ کرے۔‘‘ اگر یہ حدیث صحیح اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک مرفوعاً ثابت ہوتی تو اس سلسلے میں یہ نص تھی، لیکن ایسا نہیں ہے، بلکہ اسے امام احمد، ابن معین، حاتم اور دارقطنی رحمہم اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ امام احمد اور بیہقی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ یہ روایت مرسل ہے اور جمہور اہلِ علم محدّثین کے نزدیک مرسل روایت حجت نہیں ہوتی۔ لہٰذا جب یہ حدیث صحیح ثابت ہی نہیں ہے تو وضو کا حکم اپنی اصل حالت پر قائم رہے گا اور وہ ہے عدمِ نقض، اس حکم کو عدمِ نقض سے نقض کی طرف لے جانے کے لیے کسی قوی دلیل کی ضرورت ہے، جو یہاں نہیں ہے۔[2] یاد رہے کہ اس روایت میں مذکور دیگر اشیا میں سے مذی کے ناقضِ وضو ہونے کے دلائل تو صحیحین کی احادیث میں مذکور ہیں، جو ذکر کیے جاچکے ہیں اور استفراغ یعنی ڈکار کے ساتھ پیٹ سے کھانا منہ میں آجانے کا حکم قے والا ہی ہے کہ یہ ناقضِ وضو نہیں ہے۔ نکسیر کے بارے میں تفصیل بعد
[1] سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۱۳۲۱) المنتقی مع النیل (۱؍ ۱؍ ۲۲۲ مصری) بلوغ المرام مع السبل (۱؍ ۱؍ ۶۷) ضعیف الجامع (۵۴۳۴) [2] تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: سبل السلام (۱؍ ۱؍ ۲۷) نیل الأوطار (۱؍ ۱؍ ۲۲۲، ۲۲۳) إرواء الغلیل (۱؍ ۱۴۸) التلخیص الحبیر (۱؍ ۱؍ ۲۷۵)