کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 434
زاد المسیر: علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر ’’زاد المسیر‘‘ میں سورۃ النساء کی آیت (۴۳) کے تحت لکھا ہے کہ ملامست سے مراد کے بارے میں دو قول ہیں، پھر ان دونوں کو ذکر کیا ہے، جب کہ ترجیح جماع والی مراد ہی کو دی ہے۔[1] تفسیر قرطبی: امام قرطبی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر ’’الجامع لأحکام القرآن‘‘ میں سورۃ النساء کی آیت (۴۳) کے تحت بڑی تفصیل بیان کی ہے۔ اس آیت سے انھوں نے اکتالیس مسائل کا استنباط و استخراج کیا ہے، جو اکتالیس صفحات پر محیط ہیں اور مسئلہ (۲۶) اسی لمس سے تعلق رکھتا ہے، جس کے بارے میں انھوں نے مختلف اقوال ذکر کیے ہیں اور دونوں معروف مذاہب یعنی مطلقاً نقضِ وضو یا عدمِ نقض کے بجائے ایک تیسرے مسلک کی بھرپور تائید کی ہے: ایک درمیانی راہ: امام مالک، احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ اور لیث بن سعد رحمہم اللہ سے ایک تیسرا مسلک مروی ہے، جس میں مذکورہ دونوں مذاہب کی نسبت درمیانی راہ اختیار کی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص شہوت کے داعیے سے عورت کو چھوئے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے اور اگر اس کے بغیر ہو تو پھر نہیں ٹوٹے گا۔ اس مسلک کو امام قرطبی رحمہ اللہ نے سب سے شدید ترین قرار دیا ہے۔[2] فی ظلال القرآن: دَورِ حاضر کی معروف کتبِ تفسیر میں سے ایک کتاب ’’في ظلال القرآن‘‘ ہے، جس میں سید قطب شہید رحمہ اللہ نے بھی لمس کے بارے میں چار قسم کے اقوال ذکر کیے ہیں اور آخر میں لکھا ہے کہ ہمارے نزدیک {اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآئَ} میں لمس سے مرادی معنیٰ ٰ وہی ہے، جس سے غسل واجب ہوتا ہے، یعنی جماع، پھر وہ کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک ترجیح اسی معنیٰ کو حاصل ہے۔[3]
[1] زاد المسیر (۲؍ ۹۲، ۹۳) طبع المکتب الإسلامي۔ [2] تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: تفسیر القرطبي (۳؍ ۵؍ ۲۲۳، ۲۲۸) طبع قاہرہ۔ [3] في ظلال القرآن (۲؍ ۶۶۸، ۶۶۹) دار الشروق، بیروت و قاہرہ۔