کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 431
قائلینِ نقض کے دلائل اور ان کا جائزہ: حضرت عمر بن خطاب، عبداللہ بن مسعود اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم ، امام زہری، شافعی اور ان کے اصحاب، نیز ربیعہ اور زید بن اسلم رحمہم اللہ کے نزدیک عورت کو چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ ان کا استدلال بعض احادیث اور قرآنِ کریم کی ایک آیت سے ہے۔ پہلی دلیل: آیتِ تیمم یعنی سورۃ النساء (آیت: ۴۳) اور سورۃ المائدہ (آیت: ۶) میں جو یہ الفاظ ہیں: {اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآئَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا} ’’یا تم عورتوں سے ہم بستر ہوئے ہو اور تمھیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی لو اور منہ اور ہاتھوں کا مسح (کر کے تیمم) کر لو۔‘‘ اس آیت کے ان الفاظ میں جو لفظ {لٰمَسْتُمُ} ہے، اس کا لغوی معنیٰ لمس کرنا اور چھونا ہے، عورت کو چھونے کے نواقضِ وضو ہونے کی رائے رکھنے والوں نے اس سے یہی استدلال کیا اور کہا ہے کہ قرآنِ کریم کے مذکورہ مقام پر اس ’’لمس‘‘ کا یہی معنیٰ ہے۔ جبکہ پہلے مسلک والوں نے وہاں اس لفظ کا مجازی معنیٰ صحبت و جماع مراد لیا ہے اور صرف مس کرنے کو ناقض نہیں کہا۔ لمس کا معنی: قائلینِ نقض کی دلیلِ اوّل سورۃ النساء و سورۃ المائدہ کی آیتِ تیمم ہے اور اگر قرآن کے ان مقامات پر {اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآئَ} میں لمس کو اس کے لغوی و حقیقی معنوں پر ہی محمول کیا جائے تو بات بن جاتی ہے، لیکن وہاں حقیقی معنیٰ مراد نہیں، بلکہ مجاز ی معنیٰ مراد ہے اور لمس یا چھونا جماع کرنے سے کنایہ ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور دیگر مفسرینِ کرام رحمہم اللہ کی آرا: رئیس المفسّرین حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی تفسیر سے پتا چلتا ہے اور یہ وہی مفسر ہیں، جو ’’ترجمان القرآن‘‘ کے نام سے معروف ہیں اور صحیح بخاری و مسلم اور مسندِ احمد میں مذکور حدیث کی روسے ان کے لیے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی تھی: