کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 429
10۔اسی حدیث سے یہ بھی اخذ کیا گیا ہے کہ نماز کے دوران میں اتنے فعل سے نماز پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔[1] 11۔بخاری شریف کے ایک باب میں اس حدیث سے گیارھواں مسئلہ یہ لیا گیا ہے کہ چارپائی کا استعمال جائز ہے، یہ تقوے اور پرہیز گاری کے خلاف نہیں۔[2] 12۔ بارھواں مسئلہ یہ ہے کہ شوہر کے جاگتے ہوئے بیوی سوسکتی ہے۔ عورت کے چھونے کے ناقضِ وضو نہ ہونے کی تیسری دلیل سننِ اربعہ اور مسندِ احمد میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ فرماتی ہیں: (( إِنَّ النَّبِيَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم قَبَّلَ بَعْضَ نِسَائِہٖ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَی الصَّلَاۃِ، وَلَمْ یَتَوَضَّأْ )) ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی زوجہ محترمہ کا بوسا لیا اور پھر نماز کے لیے گئے اور وضو نہ کیا۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرنے والے راوی ان کے بھانجے حضرت عروہ بن زبیر رحمہ اللہ ہیں، جو حضرت اسما بنت صدیق رضی اللہ عنہا کے بیٹے تھے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ان سے یہ بات سن کر کہا: ’’مَنْ ہِيَ إِلَّا أَنْتِ؟ قَالَ: فَضَحِِکَتْ‘‘[3] ’’آپ کے سوا وہ کون ہوسکتی ہے؟ کہتے ہیں: وہ ہنس دیں۔‘‘ امام ابو داود رحمہ اللہ نے یہ روایت نقل کرنے کے بعد اسے مرسل کہا ہے اور امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مرسل ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے موضوع کی یہ بہتر ین حدیث ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ سے اس روایت کی تضعیف نقل کی ہے، لیکن امام شوکانی رحمہ اللہ کے بقول اس حدیث کا ضعف دوسری صحیح احادیث کی وجہ سے زائل ہو جاتا ہے، گویا اس حدیث کی سند ضعیف ہے تو پھر بھی کوئی مضایقہ نہیں، کیوں کہ صحیحین کی دوسری احادیث شاہد ہیں کہ عورت کو چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ یہ حدیث معرضِ استدلال نہ سہی، صرف تائید کے لیے ہی سہی، مگر صحیح احادیث جو موجود ہیں۔ ایک چوتھی حدیث بھی صحیح بخاری ومسلم اور دوسری کتب میں موجود ہے۔ شرح السنہ میں امام بغوی رحمہ اللہ
[1] فتح الباري (۳/ ۸۰) [2] فتح الباري (۱۱؍ ۶۷) [3] صحیح سنن أبي داود (۱؍ ۳۶) سنن أبي داود مع العون (۱؍ ۳۰۱) سنن الترمذي مع تحفۃ الأحوذي (۱؍ ۲۸۱) صحیح سنن الترمذي، رقم الحدیث (۷۵) صحیح سنن النسائي، رقم الحدیث (۱۶۴) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۵۰۲) المنتقی مع النیل (۱؍ ۱؍ ۱۹۵)