کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 427
’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا فرماتے، جب کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور قبلے کے مابین اس بستر پر ہوتیں، جس پر وہ سویا کرتے تھے۔‘‘ دوسری حدیث میں ہے: (( وَھِيَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْقِبْلَۃِ عَلَیٰ فِرَاشِ أَھْلِہٖ إِعْتَرَاضِ الْجَنَازَۃِ )) [1] ’’جب کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور قبلے کے ما بین اسی طرح ہوتیں، جیسے کسی کے سامنے جنازہ پڑا ہو۔‘‘ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر سامنے کوئی سویا یا لیٹا ہوا ہو تو نماز ہوجاتی ہے، مکروہ نہیں، جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے اور اس کراہت پر دلالت کرنے والی احادیث کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے، اگر بالفرض وہ صحیح ثابت بھی ہو جائیں تو ان کو اس صورت پر محمول کیا جائے گا کہ اگر نمازی کی سوچ و فکرکے مشغول ہو جانے کا غالب خدشہ ہو تو پھر ایسا نہ کرے۔[2] 3۔تیسرا مسئلہ ’’صحیح البخاري، باب الصلاۃ إلیٰ السریر‘‘ میں مذکور ہے کہ سامنے چارپائی پر کوئی سویا یا لیٹا ہوا ہو تو اس جگہ نماز ادا کی جاسکتی ہے، جیسا کہ اس باب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے الفاظ میں ہے: (( لَقَدْ رَأَیْتُنِيْ مُضْطَجِعَۃً عَلٰی السَّرِیْرِ فَیَجِيئُ النَبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم فَیَتَوَسَّطُ السَّرِیْرَ فَیُصَلِّيْ )) [3] ’’میں چارپائی پر لیٹی ہوتی تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آتے اور چارپائی کو اپنے سامنے رکھ کر اس کے وسط میں کھڑے ہوکر نماز پڑھتے تھے۔‘‘ 4۔آگے ایک باب میں چوتھا مسئلہ یہ اخذ کیا گیا ہے کہ نماز ی کے سامنے اس کا کوئی ساتھی ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں، وہ اس کی نماز منقطع نہیں کرتا اور اس سے آگے ’’باب الصلاۃ خلف النائم‘‘ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے الفاظ ہیں:
[1] صحیح البخاري (۱؍ ۴۹۲) صحیح مسلم مع شرح النووي (۲؍ ۴؍ ۲۲۸، ۲۲۹) [2] فتح الباري (۱؍ ۴۹۲) [3] صحیح البخاري (۱؍ ۵۵۱، ۵۸۷)