کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 424
کھانے یا پینے کے بعد بھی کلی مستحب ہے۔[1] سنن ابن ماجہ میں مذکورہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: (( مَضْمِضُوْا مِنَ اللَّبَنِ )) [2]’’دودھ پی کر کلی کرو۔‘‘ سنن ابن ماجہ ہی میں حضرت اُم سلمہ اور سہل بن سعد رضی اللہ عنہما سے بھی حسن سند کے ساتھ یہی الفاظ مروی ہیں، جن سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ دودھ پینے کے بعد کلی کرنا واجب ہے، کیوں کہ ان میں امر کا صیغہ ہے، جو عموماً وجوب کے لیے ہوتا ہے، لیکن فتح الباری میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ یہاں استحباب کے لیے ہے، جس کی دلیل یہ ہے کہ اسی حدیثِ مذکور کے راوی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت امام شافعی رحمہ اللہ نے بیان کی ہے کہ انھوں نے دودھ پیا اور کلی کی اور یہ بھی فرما دیا: ’’لَوْ لَمْ أَتَمَضْمَضْ مَا بَالَیْتُ‘‘ ’’اگر میں کلی نہ کروں تو بھی پروا نہیں۔‘‘ مذکورہ الفاظ کے استحباب پر دلالت کرنے کی دوسری دلیل سنن ابو داود میں حسن سند کے ساتھ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث بھی ہے، جس میں وہ بیان کرتے ہیں: (( إِنَّ النَّبِیَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم شَرِبَ لَبَناً فَلَمْ یَتَمَضْمَضْ )) [3] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پیا اور کلی نہیں کی۔‘‘ اسی مقام پر صاحبِ فتح الباری لکھتے ہیں: (( إِنَّ لَہٗ دَسْماً )) ’’اس میں چکناہٹ ہوتی ہے۔‘‘ کے الفاظ میں کلی کی وجہ بتائی گئی ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ ہر چکنی چیز کھا نے یا پینے کے بعد کلی کرنا مستحب ہے اور اسی سے یہ استنباط بھی کیا جاسکتا ہے کہ ہر چکنی چیز کھانے کے بعد نظافت و صفائی کی غرض سے ہاتھوں کا دھونا بھی مستحب ہے۔[4] امام نووی رحمہ اللہ نے شرح صحیح مسلم میں لکھا ہے کہ کھانا کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھوں کو دھونے کے مستحب ہونے کے بارے میں اہلِ علم کے مختلف اقوال ہیں، جن میں سے صحیح تریہی ہے کہ کھانا کھانے سے پہلے ہاتھوں کا دھونا مستحب ہے۔ سوائے اس کے کہ اسے یقین ہو کہ اس کے ہاتھ
[1] شرح صحیح مسلم للنووی (۲؍ ۴؍ ۴۶) [2] سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۴۹۸) صحیح الجامع، رقم الحدیث (۵۸۷۴) [3] صحیح سنن أبي داود، رقم الحدیث (۱۸۱) [4] فتح الباري (۱/ ۳۱۳)