کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 423
کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاے راشدین رضی اللہ عنہم کا عمل کیا تھا؟ پھر ان کے عمل والی جانب کو راجح قرار دیں گے (اور وہ ترکِ وضو ہے)۔‘‘ ’’المجموع شرح المہذب‘‘ میں امام نووی رحمہ اللہ نے اسی بات پر رضا مندی کا اظہار کیا ہے اور شرح مسلم میں وہ فرماتے ہیں کہ صحابہ و تابعین کے مابین یہ اختلافِ رائے معروف تھا۔ پھر اس بات پر اجماع ہو گیا کہ آگ پر پکی چیز سے وضو واجب نہیں، سوائے اونٹ کے گوشت کے کہ وہ مستثنیٰ ہے۔ امام خطابی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ جن احادیث میں وضو کرنے کا حکم ہے، انھیں استحباب پر محمول کیا جائے نہ کہ وجوب پر۔ امام ابو البرکات المجد ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی ’’منتقیٰ الأخبار‘‘ میں کچھ ایسی ہی بات فرمائی ہے کہ جن احادیث میں ترکِ وضو کا ذکر ہے، وہ وجوب کی نفی کرتی ہیں نہ کہ استحباب کی۔[1] ہاتھ دھونا اور کلی کرنا: یہاں یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ اہلِ جاہلیت صفائی ستھرائی پر زیادہ تو جہ دینے کے عادی نہیں تھے۔ لہٰذا شروع اسلام میں کھانا کھانے کے بعد وضو کا حکم دیا گیا تھا اور جب اسلامی تعلیمات نے نظافت اور صفائی کی اہمیت لوگوں کے دلوں میں جاگزیں کر دی تو پھر کھانا کھانے کے بعد وضو کا وجوب بھی منسوخ کر دیا گیا اور چکناہٹ والی اشیا کھانے پینے کے بعد پورا وضو استحباباً بھی کیا جائے تو حرج نہیں، لیکن بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کم ازکم کلی کر لی جائے اور ہاتھ دھو لیے جائیں۔ چنانچہ صحیح مسلم، سنن ابو داود، ترمذی اور ابن ماجہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: (( إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم شَرِِبَ لَبَناً فَمَضْمَضَ، وَقَالَ: إِنَّ لَہٗ دَسْماً )) [2] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پیا اور کلی کی اور فرمایا کہ اس کی چکناہٹ ہوتی ہے۔‘‘ امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ اس سے دودھ پینے کے بعد کلی کرنے کے استحباب کا پتا چلتا ہے اور اہلِ علم نے کہا ہے کہ دودھ کی طرح ہی دوسری اشیاے خور و نوش کو
[1] تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: شرح صحیح مسلم للنووي (۲؍ ۴؍ ۴۳) فتح الباري (۱؍ ۳۱۱) المنتقی مع النیل (۱؍ ۱؍ ۲۰۹) تحفۃ الأحوذي (۱؍ ۲۶۱) [2] صحیح البخاري مع الفتح (۱؍ ۳۱۳) صحیح مسلم مع النووي (۲؍ ۴؍ ۴۶) صحیح سنن أبي داود، رقم الحدیث (۱۸۰) صحیح سنن الترمذي (۷۷) صحیح سنن النسائي، رقم الحدیث (۱۸۱) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۴۹۸)