کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 422
فقَاَمَ وَطَرَحَ السِّکِّیْنَ وَصَلَّیٰ وَلَمْ یَتَوَضَّأْ )) [1] ’’میں نے دیکھا کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بکرے کے کندھے کا گوشت کاٹ کاٹ کر کھا رہے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے پکارے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے اور چھری پھینک دی، نئے سرے سے وضو کیے بغیر نماز ادا فرمائی۔‘‘ اس حدیث کی شرح میں امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ چھری سے کاٹ کر گوشت کھانا جائز ہے، کیوں کہ کبھی ہوسکتا ہے کہ گوشت سخت ہویا بکرا بڑا ہو۔ اس ضرورت سے تو پکے ہوئے گوشت کو کاٹ کر کھانا جائزہے، ورنہ بلا ضرورت ایسا کرنے کو اہلِ علم نے مکروہ کہا ہے۔[2] تاہم حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’فتح الباري‘‘ میں ممانعت والی سنن ابو داود کی حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے اور بہ صورتِ صحت جواز کو صرف ضرورت پر محمول کیا ہے۔[3] 3۔وضو کے عدمِ وجوب کی تیسری دلیل سنن اربعہ، صحیح ابن خزیمہ اور ابن حبان میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی وہ حدیث ہے، جس میں وہ فرماتے ہیں: (( کَانَ آخِرُ الْأَمْرَیْنِ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم تَرْکُ الْوُضُوْئِ مِمَّا غَیَّرَتِ النَّارُ )) [4] ’’آگ پر پکی ہوئی اشیا کو کھانے کے بعد وضو کرنے یا نہ کرنے کے دونوں امور میں سے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری امر ترکِ وضو تھا۔‘‘ ان احادیث کی رو سے معلوم ہواکہ کھا نا کھا نے کے بعد وضو کرنا ضروری نہیں، بشرطیکہ اونٹ کا گوشت نہ ہو۔ اگر وہ ہو تو پھر وضو واجب ہے۔ فتح الباری میں ہے: ’’امام دارمی سے نقل کرتے ہوئے امام بیہقی لکھتے ہیں کہ جب کسی موضوع کی احادیث مختلف و متعدد اور صحیح ہوں اور ان میں سے راجح کا پتا بھی نہ چلے تو پھر ہم دیکھیں گے
[1] صحیح البخاري (۱؍ ۳۱۱) صحیح مسلم (۲؍ ۴؍ ۴۵) [2] شرح صحیح مسلم للنووي (۲؍ ۴؍ ۴۵) [3] فتح الباري (۱؍ ۳۱۲) [4] سنن أبي داود (۱؍ ۳۲۷) سنن الترمذي (۱؍ ۲۵۸) مفصلاً، و صحیح سنن النسائي، رقم الحدیث (۱۷۹) و سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۴۸۹) التلخیص الحبیر (۱؍ ۱؍ ۱۱۶) مختصراً، موارد الظمآن، رقم الحدیث (۲۱۸، ۲۲۰، ۳۲۱)