کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 42
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو کرتے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس پانی کو حاصل کر نے کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے۔‘‘ اس مسلک کے قائلین کا کہنا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پانی کو اس شوق و محبت سے ہاتھوں ہاتھ لیتے اور اپنے جسم پر ملتے جاتے تھے، مگر آپ کا انھیں اس فعل سے روکنا ثابت نہیں ہے، جو مستعمل پانی کے طاہر و مطہر ہونے کی دلیل ہے۔ 4۔ صحیح بخاری اور مسند احمد میں حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: (( خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم بِالْہَاجِرَۃِ، فَأُتِيَ بِوَضُوئِ ہٖ فَتَوَضَّأَ فَجَعَلَ النَّاسُ یَأْخُذُوْنَ مِنْ فَضْلِ وَضُوْئِ ہٖ فَیَتَمَسَّحُوْنَ بِہٖ )) [1] ’’نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم (ایک مرتبہ) دوپہر کے وقت ہمارے پاس تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کے لیے پانی دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے وضو فرمایا تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو سے گِرنے والے پانی کو اٹھانے اور اسے اپنے جسموں پر ملنے لگے۔‘‘ 5۔ اسی موضوع کی ایک حدیث بھی صحیح بخاری میں مذکور ہے: (( دَعَا النَّبِیُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم بِقَدَحٍ فِیْہِ مَآئٌ، فَغَسَلَ یَدَیْہِ وَ وَجْہَہٗ وَ مَجَّ فِیْہِ، ثُمَّ قَالَ لَہُمَا (یَعْنِی اَبَا مُوْسیٰ وَ بِلَالاً): اِشْرَبَا مِنْہُ، وَاَفْرِغَا عَلَیٰ وُجُوہِکُمَا وَ نُحُورِکُمَا ))[2] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیالہ منگوایا، جس میں پانی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اپنے دونوں دستِ مبارک اور چہرۂ اقدس کو دھویا اور کلی کا پانی بھی اسی میں ڈالا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو موسیٰ اشعری اور حضرت بلال رضی اللہ عنہما کو حکم فرمایا: اس پانی کو پیو اور اپنے چہروں اور گلوں پر بھی ڈال لو۔‘‘ 6۔ نیز صحیح بخاری (۱/ ۲۹۶) ہی میں مروی ہے کہ حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: (( ذَھَبَتْ بِيْ خَالَتِی إِلٰی النَّبِیِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم ، فَقَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ( صلی اللّٰه علیہ وسلم )! اِنَّ ابْنَ
[1] صحیح البخاري مع الفتح (۱؍ ۲۹۲) الفتح الرباني (۱؍ ۲۰۹) و النیل (۱؍ ۱۹) [2] صحیح البخاري مع الفتح (۱؍ ۲۹۵)