کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 417
(( کُنَّا نَتَوَضَّأُ مِنْ لُّحُوْمِ الْإِبِلِ، وَلَا نَتَوَضَّأُ مِنْ لُّحُوْمِ الْغَنَمِ )) [1] ’’ہم اونٹ کاگوشت کھانے کے بعد وضو کیا کرتے تھے اور بکری کا گوشت کھانے کے بعد وضو نہیں کیا کرتے تھے۔‘‘ اب آئیے اس سلسلے میں دوسرا مسلک اور اس کے دلائل بھی دیکھیں۔ قائلین عدمِ نقض کے دلائل: 1۔اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کے عدمِ نقض کے قائلین کی ایک اہم دلیل تو یہ ہے کہ خلفاے راشدین رضی اللہ عنہم عدمِ نقض کے قائل تھے، جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ نے شرح صحیح مسلم میں ذکر کیا ہے۔ یہ بات واقعی ایک وقیع دلیل ہوتی، اگر صحیح سند سے ثابت ہوتی، لیکن ایسا نہیں ہے، بلکہ یہ امام نووی رحمہ اللہ کا تسامح ہے، جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’القواعد النورانیۃ‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ خلفاے راشدین اور جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم سے جو نقل کیا گیا ہے کہ وہ اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو نہیں کیا کرتے تھے، یہ فعل ان کی طرف غلطی سے منسوب کیا گیا ہے، اس وہم کا سبب دراصل وہ بات ہے کہ وہ پکی ہوئی اشیاے خوردنی کو کھانے کے بعد وضو نہیں کیا کرتے تھے۔ (یہ مسئلہ تو اپنی جگہ صحیح ہے) لیکن اس سے مراد صرف یہ ہے کہ ہر پکی ہوئی چیز کا کھانا ان کے نزدیک وضو کرنے کا سبب نہیں تھا اور جو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کرنے کا حکم فرمایا، اس کا سبب اس کا پکا ہوا ہونا نہیں ہے۔۔۔۔ الخ۔ صاحبِ ’’تمام المنۃ‘‘ لکھتے ہیں: شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اس تحقیق کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ امام طحاوی و بیہقی نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق و عمر رضی اللہ عنہما نے روٹی گوشت کھایا اور نماز ادا کی، لیکن از سرِ نو وضو نہیں کیا۔ آگے امام طحاوی وبیہقی ہی نے حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی اسی طرح روایت بیان کی ہے۔ سنن بیہقی میں ایک روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی ایسی ہی ہے، لیکن آپ دیکھ رہے ہیں کہ ان آثار میں اونٹ کے گوشت کا قطعاً ذکر نہیں ہے، بلکہ صرف مطلق گوشت کا ذکر
[1] تمام المنۃ (ص: ۱۰۶) و صححہ۔