کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 415
ہیں کہ اونٹ کے گوشت کا ناقضِ وضو ہونا ہی دلیل کے اعتبار سے زیادہ قوی ہے۔[1] او نٹ کا گوشت کھانے سے وضو کے ٹوٹ جانے کے قائلین میں سے بقول امام نووی، امام احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ، یحییٰ بن معین، ابن المنذر اور ابن خزیمہ رحمہم اللہ ہیں۔ امام بیہقی کا اختیار بھی یہی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت اور عام علماے حدیث سے بھی یہی مروی ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے ’’البحر الرائق‘‘ سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک قول کے مطابق امام شافعی کا بھی یہی مسلک ہے اور ایک قول کی رو سے امام محمد بن حسن (شاگرد امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ) بھی اونٹ کا گوشت کھا نے سے نقضِ وضو کے قائل تھے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے امام شافعی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا: ’’اگر اونٹوں کے گوشت سے وضو ٹوٹنے کے بارے میں کوئی حدیث صحیح ثابت ہو جائے تو میں اسی کے مطابق فتویٰ دوں گا۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کر کے امام بیہقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس مسئلے میں ایک نہیں، بلکہ دو حدیثیں سند سے ثابت ہیں۔‘‘[2] علامہ ابن حزم رحمہ اللہ بھی نقض ہی کے قائل ہیں، جیسا کہ ’’المحلیٰ‘‘ (۱/ ۱/ ۲۴۱) میں ہے اور ’’القواعد النورانیۃ‘‘ میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی تحقیق بھی یہی ہے کہ وضو ٹوٹ جاتا ہے۔[3] قائلینِ نقض کے دلائل: 1۔نقضِ وضو کے قائلین کا استدلال جن احادیث سے ثابت ہے، ان میں سے پہلی حدیث صحیح مسلم اور مسند احمد میں حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جس میں وہ فرماتے ہیں کہ کسی آدمی نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: (( أَنَتَوَضَّأُ مِنْ لُحُوْمِ الْغَنَمِ؟ قَالَ: إِنْ شِئْتَ تَوَضَّأْ وَإِنْ شِئْتَ فَلَا تَتَوَضَّأْ )) ’’کیا ہم بکری کا گو شت کھانے کے بعد وضو کیا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر چاہو تو وضو کر لو اور اگر چاہو تو نہ کرو (یعنی تمھیں اختیار ہے)۔‘‘
[1] شرح صحیح مسلم للنووي (۲؍ ۴؍ ۴۹) [2] نیل الأوطار (۱/ ۱/ ۲۰۰) طبع بیروت۔ [3] دیکھیں: تمام المنۃ (ص: ۱۰۵)