کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 412
والے ہی کو کہتے ہیں: ’’خَفَقَ بِرَأْسِہٖ مِنَ النُّعَاسِ: أَمَالَہٗ‘‘ ’’یعنی اونگھ سے اپنے سر کو خفقہ دینے سے مراد سر کو ایک طرف مائل کرنا ہے۔‘‘ ہروی کہتے ہیں: ’’مَعْنٰی: تَخْفِقُ رُؤُوْسُھُمْ، تَسْقُطُ أَذْقَانُھُمْ عَلٰی صُدُوْرِھِمْ‘‘ ’’ان کے سروں کا خفقہ کھانا، ان کی ٹھوڑیوں کا ان کے سینوں پر گرجانا ہے۔‘‘ خفقانِ راس اور اونگھ کے متعلق اس تفصیل سے ’’قیام اللیل للمروزي‘‘ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ والی اس روایت کا مفہوم بھی واضح ہو گیا، جس میں ان کے الفاظ ہیں: (( کَانَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَنْتَظِرُوْنَ الصَّلَاۃ فَیَنْغَمِسُوْنَ حَتَّیٰ تَخْفِقَ رُؤُوْسُھُمْ، ثُمَّ یَقُوْمُوْنَ إِلَی الصَّلَاۃِ )) [1] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نماز کے انتظار میں اونگھ جاتے، حتیٰ کہ ان کے سر جھک جاتے، پھر وہ اٹھتے اور نماز ادا کرتے۔‘‘ یوں اب بات واضح ہوگئی کہ وہ حالت جو اونگھ کے دائرے میں آتی ہے، اس میں وضو نہیں ٹوٹتا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں جو سر جھکانے کی روایات ملتی ہیں، ان میں یہی اونگھ مراد ہے اور ان کے لیٹ کر سو جانے اور خراٹے سنے جانے کے باوجود ان کے تجدیدِ وضو کے بغیر ہی نماز میں شامل ہو جانے سے مراد نیند سے وضو کے واجب ہونے کے حکم سے پہلے کی حالت کا بیان ہے، اس کا اظہار شیخ ابن باز اور ان کے ساتھی علما نے ’’فتح الباري‘‘ کی تحقیق و تعلیق میں کیا ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ’’اس مسئلے میں صحیح بات یہ ہے کہ نیند نقضِ وضو (حدث) کا ظن پیدا کرنے والی چیز ہے۔ اس کی (ابتدائی حالت یا) اونگھ اور با لکل معمولی (خفیف) حالت وضو نہیں توڑتی۔ وضو صرف وہ نیند توڑتی ہے، جو شعور (و احساس) کو مطلقاً زائل کر دے۔ اس طرح اس موضوع
[1] فتح الباري (۱؍ ۳۱۴) قال: إسنادہ صحیح و أصلہ عند مسلم۔ نیز دیکھیں: صحیح سنن أبي داود، رقم الحدیث (۱۸۴) شرح مع النووي (۲؍ ۴؍ ۷۳) فتح الباري (۱؍ ۱؍ ۳۱۵) تلخیص الحبیر (۱؍ ۱؍ ۱۱۹) عون المعبود (ص: ۳۳۹۔ ۳۴۰)