کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 409
(( إِنَّھُمْ کَانُوْا یَضَعُوْنَ جُنُوْبَھُمْ فَیَنَامُوْنَ، مِنْھُمْ مَنْ یَّتَوَضَّأُ وَمِنْھُمْ مَنْ لَّا یَتَوَضَّأُ )) [1] ’’وہ پہلو کے بل لیٹ کر سو جایا کرتے تھے ۔ پھر ان میں سے کوئی وضو کر لیتا اور کوئی وضو نہ کرتا (یعنی پہلے وضو ہی سے نماز پڑھ لیتا تھا)۔‘‘ فتح الباری میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری و ابن عمر رضی اللہ عنہم اور حضرت سعید بن المسیب رحمہ اللہ نیند کو مطلقاً ناقض نہیں سمجھتے تھے۔[2] ’’التلخیص الحبیر‘‘ میں موصوف نے ان کبار ائمہ کے اقوال ذکر کیے ہیں، جنھوں نے ان احادیث کو بیٹھ کر سونے پر محمول کرتے ہوئے غیر ناقض قرار دیا ہے۔ چنانچہ امام ابن المبارک، عبدالرحمن بن مہدی اور امام شافعی رحمہم اللہ نے یہی موقف اختیار کیا ہے۔ امام ابن القطان نے کہا ہے کہ صحیح مسلم میں اس حدیث کا جو سیاق ہے، اسے بیٹھ کر سونے والے کی نیند پر محمول کیا جاسکتا ہے اور اکثر ائمہ نے ایسا ہی کیا ہے، لیکن مسند بزار اور محلّٰی والی روایت کے الفاظ (( کَانُوْا یَضَعُوْنَ جُنُوْبَھُمْ )) اس تاویل کی اجازت نہیں دیتے، کیوں کہ یہ تو لیٹ کرسونے پر صریح دلالت کرتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ وضو نہیں کیا کرتے تھے۔[3] علامہ ابن دقیق العید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حدیثِ انس رضی اللہ عنہ کی (( کَانُوْا یَضَعُوْنَ جُنُوْبَھُمْ )) والی روایت کو خفیف اور ہلکی سی نیند پر محمول کیا جائے گا، جب کہ یہ تاویل سنن دار قطنی والی حدیث کے منافی ہے، جس میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کے غطیط یعنی خراٹے سننے والے الفاظ بھی ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ خراٹے تو ہلکی نیند میں نہیں سنے جا سکتے۔ یاد رہے کہ خراٹوں والی حدیث کو علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ترمذی کی طرف بھی منسوب کیا ہے، مگر یہ اس میں ہمیں نہیں ملی۔[4]
[1] فتح الباري (۱؍ ۳۱۵) و صححہ، المحلی (۱؍ ۱؍ ۲۲۴) تمام المنۃ (ص: ۱۰۰) و صححہ۔ [2] فتح الباري (۱؍ ۳۱۵) [3] التلخیص الحبیر و فتح الباري (۱/ ۳۱۵) ملاحظہ فرمائیں۔ [4] دیکھیں: سنن الترمذي مع التحفۃ (۱؍ ۲۵۱۔ ۲۵۵) سنن الدارقطني (۱؍ ۱۳۱) التلخیص الحبیر (۱؍ ۱؍ ۱۱۹) سبل السلام (۱؍ ۱؍ ۷۲)