کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 407
ہوئے لکھا ہے کہ امام مزنی رحمہ اللہ نے بھی کہا ہے: ’’یَنْقُضُ قَلِیْلُہٗ وَکَثِیْرُہٗ‘‘ ’’معمولی اور گہری ہر طرح کی نیند ناقضِ وضو ہے۔‘‘ امام اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے اور امام ابن منذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت صفوان رضی اللہ عنہ والی حدیث جسے امام ابن خزیمہ اور دیگر محدّثین نے صحیح قرار دیا ہے۔ اس کے عموم کے پیشِ نظر میرا قول بھی یہی ہے کہ معمولی اور گہری نیند ناقضِ وضو ہے۔[1] حضرت انس، ابو ہریرہ اور ابو رافع رضی اللہ عنہم اور عروہ بن زبیر، عطا، حسن بصری،سعید بن المسیب، عکرمہ اور زہری رحمہم اللہ اور حنابلہ سمیت علما کی ایک جماعت کا بھی یہی مسلک ہے۔[2] دیگر اقوال: بعض اہلِ علم نے نیند کی مختلف حالتوں کے مختلف احکام ذکر کیے ہیں، حتیٰ کہ علامہ نووی رحمہ اللہ نے ’’شرح صحیح مسلم‘‘ میں، علامہ یمانی امیر صنعانی رحمہ اللہ نے ’’سبل السلام‘‘ میں اور امام شوکانی رحمہ اللہ نے ’’نیل الأوطار‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ نیند کے بارے میں علما کے آٹھ اقوال ہیں، پھر آٹھوں اقوال اور ان کے دلائل بھی ذکر کیے ہیں، جن میں سے پہلا قول تو یہی ہے، جس میں نیند کو مطلقاً ناقض کہا گیا ہے۔ انھوں نے خود اسے ہی ’’أقرب الأقوال‘‘ قرار دیا ہے اور تین اقوال نماز کے اندر اور خصوصاً قیام، رکوع اور سجدہ کی حالت میں سونے سے تعلق رکھتے ہیں، ان کا استدلال خلافیاتِ بیہقی اور بعض دیگر کتب کی اس روایت سے ہے، جس میں مروی ہے: (( إِذَا نَامَ الْعَبْدُ فِيْ سُجُوْدِہٖ بَاھٰی اللّٰہُ بِہِ الْمَلَائِکَۃَ وَیَقُوْلُ: اُنْظُرُوْا إِلٰی عَبْدِيْ، رُوْحُہٗ عِنْدِيْ وَجَسَدُہٗ سَاجِدٌ بَیْنَ یَدَیَّ )) ’’جب کوئی شخص حالتِ سجدہ میں سوجائے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے فخر کرتا ہے اور کہتا ہے: دیکھو! میرے بندے کی روح میرے پاس ہے اور اس کا جسم میرے سامنے سجدہ ریزہے۔‘‘ لیکن امیر صنعانی کے بقول یہ استدلال اوّلاً تو اس لیے صحیح نہیں کہ یہ حدیث ہی ضعیف اور
[1] فتح الباري (۱؍ ۳۱۴) [2] شرح صحیح مسلم للنووي (۲؍ ۷۳۴) الإرواء (۱؍ ۱۴۱) تحقیق صلاۃ الرسول (ص: ۱۳۵)