کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 402
دیگر روایات تو پہنچی ہوں، لیکن اس حکم کو منسوخ کرنے والی احادیث نہ پہنچی ہوں۔ اگر انھیں یہ ناسخ حدیث پہنچی ہوتی، تو وہ ضرور اسی حکم کو اختیار فرما لیتے اور یہ ناسخ حدیث کا نہ پہنچنا کوئی بعید ازا مکان بات بھی نہیں ہے، کیوں کہ نماز میں بہ وقتِ رکوع دونوں ہاتھوں کو باہم جو ڑ کر گھٹنوں کے مابین رکھنا، جسے تطبیق کہا جاتا ہے، اس کے منسوخ ہو جانے کی خبر صحابہ کی ایک جماعت کو پہنچ گئی، لیکن حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو نہیں پہنچی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ کثرت سے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں رہنے کے باوجود عمر بھر وہ تطبیق پر قائم رہے (یعنی رکوع کے وقت گھٹنوں کو پکڑ کر رکھنے کے بجائے دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر دونوں گھٹنوں کے درمیان رکھا کر تے تھے)۔ لہٰذا احادیثِ نقض کا ان تک نہ پہنچنا کوئی انہونی بات بھی نہیں ہے۔‘‘[1] محلیٰ ابن حزم میں لکھا ہے کہ حدیثِ طلق رضی اللہ عنہ سند کے اعتبار سے تو صحیح ہے، لیکن اس میں قائلینِ عدمِ نقض کے لیے کئی وجوہات کی بنا پر کوئی دلیل وحجت نہیں ہے۔ ان میں سے پہلی وجہ یہ ہے کہ حدیثِ طلق رضی اللہ عنہ میں مسِ فرج سے وضو ٹوٹنے پر دلالت کرنے والی حدیث سے پہلے کے زمانے میں لوگوں کے عمل کا ذکر ہے (کہ پہلے وہ اس سے وضو کا ٹوٹنا نہیں جانتے تھے) اور اس میں کوئی شک نہیں اور اگر ایسا ہی ہے تو پھر اس حدیث کا حکم منسوخ ہوچکا ہے اورنسخ پر وہ ارشاد دلیل ہے، جس میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ جب ایک چیز کے ناسخ اور دوسری کے منسوخ ہونے کا یقین ہو تو پھر یقینی ناسخ کو ترک کرنا اور یقینی منسوخ کو اختیار کرنا ہر گز جائز وحلال نہیں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ: (( ھَلْ ھُوَ إِلَّا بِضْعَۃ مِنْکَ؟ )) ’’کیا وہ تیرے جسم کا ہی ایک حصہ نہیں؟‘‘ اس بات کی بیّن دلیل ہیں کہ یہ حکم وضو کرنے کے حکم سے پہلے کا ہے، کیو نکہ اگر یہ کلام بعد کا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہر گزنہ فرماتے، بلکہ یہ بیان کرتے کہ اس کا حکم مسنوخ ہوچکا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد تو اس بات کی دلیل ہے کہ اس معاملے میں پہلے اصلاً کوئی حکم تھا ہی نہیں۔ آگے چل کر علامہ ابن حزم نے ان لوگوں کی بھی تردید کی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ مسِ فرج سے جس وضو کا حکم دیا گیا ہے، اس سے مراد لغوی وضو یعنی صرف ہاتھوں کو دھونا ہے۔ ان کے نزدیک اور
[1] دیکھیں: تحفۃ الأحوذي (۱؍ ۲۷۷۔ ۲۸۰)