کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 400
’’جن لوگوں کا ذکر پہلے ہوا ہے، ان کا مسلکِ نقض ہی ظاہر ہے۔‘‘ علامہ امیرصنعانی نے ’’سبل السلام شرح بلوغ المرام‘‘ میں لکھا ہے کہ حدیثِ بسرہ رضی اللہ عنہا اس کے صحیح کہنے والوں کی کثرت اور شواہد کی کثرت کی بنا پر زیادہ راجح ہے۔ [1]اس بات کا اعتراف بقول علامہ مبارکپوری خود بعض علماے احناف نے بھی کیا ہے (موصوف کا اشارہ علامہ عبد الحی لکھنوی کی طرف ہے) انھوں نے موطا امام محمد رحمہ اللہ کے حاشیے ’’التعلیق الممجد‘‘ میں کہا ہے: ’’اَلْإِنْصَافُ فِيْ ھٰذَا الْبَحْثِ أَنَّہٗ إِنِ اخْتِیْرَ طَرِیْقُ التَّرْجِیْحِ فَأَحَادِیْثُ النَّقْضِ کَثرَۃٌ وَقَوَّۃٌ‘‘ ’’اس بحث میں انصاف کی بات یہ ہے کہ اگر اس میں ترجیح کا راستہ اختیار کیا جائے تو وضو کے ٹوٹ جانے کی احادیث ہی زیادہ اور قوی ہیں۔‘‘ شرح وقایہ کے حاشیہ ’’السعایۃ‘‘ میں مولانا لکھنوی موصوف ہی لکھتے ہیں: ’’إِنَّ أَحَادِیْثَ النَّقْضِ أَکْثَرُ وَأَقْویٰ مِنْ أَحَادِیْثِ الرُّخْصَۃِ‘‘[2] ’’وضو ٹوٹنے پر دلالت کرنے والی احادیث، رخصت والی احادیث سے اَکثر اور اَقوی ہیں۔‘‘ 4۔انہی وجوہاتِ ترجیح میں سے چوتھی وجہ یہ بھی ہے کہ بعض کبار محدثینِ کرام نے حدیثِ طلق رضی اللہ عنہ کو منسوخ اور حدیثِ بسرہ رضی اللہ عنہا کو اس کی ناسخ کہاہے، چنانچہ امام ابن حبان نے اپنی صحیح میں لکھا ہے کہ حدیثِ طلق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی کثیر تعداد کواس وہم میں مبتلا کردیا ہے کہ یہ حدیث ِبسرہ رضی اللہ عنہ کے معارض و مخالف ہے، حالاں کہ ایسا نہیں ہے، کیوں کہ وہ تو حدیث ہی منسوخ ہے، کیوں کہ حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ کی نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آمد ہجرت کے پہلے سال میں تھی، جب کہ آپٖ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان مسجدِ نبوی کی تعمیر فرما رہے تھے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ۷ھ میں مسلمان ہوئے، گویا حضرت طلق رضی اللہ عنہ والی حدیث سے سات سال بعد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث صادر ہوئی۔ امام صاحب موصوف نے لکھا ہے کہ حضرت طلق رضی اللہ عنہ نے ہجرت کے پہلے سال ہی اپنے وطن واپسی اختیار کرلی تھی اور ان کا دوبارہ مدینہ طیبہ آنا بھی ثابت نہیں، جو شخص ان کی
[1] سبل السلام (۱؍ ۱؍ ۶۸) [2] دیکھیں: تحفۃ الأحوذي (۱؍ ۲۷۶)