کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 399
امام طحاوی نے فلاس اور علی بن مدینی کی طرف منسوب کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے حدیثِ طلق رضی اللہ عنہ کو حدیثِ بسرہ رضی اللہ عنہا سے اَحسن و اَثبت قرار دیا ہے۔ 1۔دیگر محدّثین نے حدیثِ بسرہ رضی اللہ عنہا کو اَثبت، اَقویٰ اور اَرجح قرار دیا ہے۔ 2۔امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حدیثِ بسرہ رضی اللہ عنہا کے حدیثِ طلق رضی اللہ عنہ سے راجح ہونے کے لیے یہی کا فی ہے کہ امام بخاری و مسلم نے نہ تو حدیثِ طلق رضی اللہ عنہ روایت کی ہے اور نہ اس کے راویوں میں سے کسی راوی سے احتجاج کیا ہے، جب کہ حدیثِ بسرہ کے تمام راویوں سے امام بخاری اور مسلم نے احتجاج کیا ہے، الاّ یہ کہ انھوں نے اس حدیث کی تخریج اپنی صحیحین میں نہیں کی اور اس کی وجہ بھی کوئی خاص نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اسماعیلی نے کہا ہے کہ اس حدیثِ بسرہ رضی اللہ عنہ کی نظیر صحیح بخاری میں موجود ہے، لہٰذا ان پر اس حدیث کا اپنی صحیح میں لانا لازم تھا۔[1] 3۔حدیثِ بسرہ رضی اللہ عنہ والے مسلک کے راجح ہونے کی تیسری وجہ یہ بھی ہے کہ حضرت طلق رضی اللہ عنہ جن سے عدمِ نقض والی حدیث مروی ہے، خود انہی سے معجم طبرانی میں اس کے بر عکس اور حدیثِ بسرہ رضی اللہ عنہ کی موید روایت بھی مروی ہے، جس میں مذکور ہے: (( مَنْ مَّسَّ فَرْجَہٗ فَلْیَتَوَضَّأْ )) [2] ’’جو اپنی شرم گاہ کو چھوئے تو وہ وضو کرے۔‘‘ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اور امام شوکانی رحمہ اللہ نے امام طبرانی سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے اس حدیثِ طلق رضی اللہ عنہ کو صحیح قرار دیا ہے۔[3] مزید لکھا ہے: یوں لگتا ہے کہ حضرت طلق رضی اللہ عنہ نے شروع شروع میں تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وہی حدیث سنی ہو، جس میں وضو نہ ٹوٹنے کا تذکرہ ہے اور پھر بعد میں کبھی یہ دوسری حدیث بھی سنی ہو، جو حدیثِ بسرہ رضی اللہ عنہ کے موافق ہے، جس کی روسے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ امام طبرانی رحمہ اللہ کا مذکورہ کلام نقل کرنے کے بعد امام شوکانی رحمہ اللہ نے ’’نیل الأوطار‘‘ میں لکھا ہے: ’’فَالظَّاھِرُ مَا ذَھَبَ إِلَیْہِ الْأَوَّلُوْنَ‘‘[4]
[1] التلخیص الحبیر (۱؍ ۱؍ ۱۲۵) و تحفۃ الأحوذي (۱؍ ۲۷۶) سبل السلام (۱؍ ۱؍ ۶۸) [2] نیل الأوطار (۱؍ ۱؍ ۱۹۸) [3] التلخیص الحبیر (۱؍ ۱؍ ۱۲۴) نیل الأوطار (۱/ ۱۹۸) [4] نیل الأوطار (۱؍ ۱؍ ۱۹۸)