کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 394
-7 خونِ استحاضہ: نواقضِ وضو کے ضمن میں ’’مَا خَرَجَ مِنَ السَّبِیْلَیْنِ‘‘ سے متعلقہ نواقض کا ذکر چل رہا ہے تو انہی میں سے خونِ استحاضہ بھی ہے، جس کا بار بار ذکر گزرا ہے۔ خونِ حیض تو غسل کا موجب ہے، لیکن خونِ استحاضہ کے لیے صرف وضو ہی کافی ہے، جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم، ابن ماجہ کے سوا سننِ اربعہ، صحیح ابن حبان اور مو طا امام مالک رحمہ اللہ کے حوالے سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش کے استحاضے سے تعلق رکھنے والی حدیث گزری ہے، جس میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (( ثُمَّ تَوَضَّئِیْ لِکُلِّ صَلَاۃٍ۔۔۔ )) فرما کر ’’ہر نماز کے ساتھ وضو کرنے کا حکم فرمایا تھا۔‘‘ جیسا کہ سلس البول کے ضمن میں اس حدیث کی نص اور انڈرویئر کے استعمال کا پتا دینے والی احادیث کی طرف اشارہ گزرا ہے۔ ان احادیث کی بنا پر جمہور اہلِ علم کے نزدیک ایامِ حیض کے بہ قدرِ وقت گزرنے کے بعد اور غسلِ حیض کے بعد آتا رہنے والا خون ناقضِ وضو ہے، موجبِ غسل نہیں۔ ایسی عورت کے لیے ہر نماز کے ساتھ وضو کرنا واجب ہے، ایک وضو سے وہ متعدد نمازیں نہیں پڑھ سکتی۔[1] -8 شرم گاہ کو چھونا: نواقضِ وضو میں سے آٹھواں ناقض ’’مَا خَرَجَ مِنَ السَّبِیْلَیْنِ‘‘ سے تو نہیں، البتہ سبیلین سے تعلق رکھتا ہے اور وہ ہے شرم گاہ کو چھونا۔ اس کے ناقض یا غیر ناقض ہونے کے بارے میں اہلِ علم کی دو الگ الگ آرا ہیں: پہلی رائے: جمہور اہلِ علم کی رائے یہ ہے کہ شرم گاہ کو چھونا ناقض ہے اور اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ خصوصاً جب کہ درمیان میں کوئی چیز حائل نہ ہو اور یہ چھونا بھی شہوت کے باعث ہو، ان کا استدلال متعدد احادیث سے ہے۔ چنانچہ ان میں سے ایک حدیث سنن اربعہ، صحیح ابن حبان وابن خزیمہ، مسند احمد و شافعی، موطا امام مالک، مستد رک حاکم اور منتقیٰ ابن جارود میں متعدد طُرق سے مروی ہے، جسے کثیر محدثینِ کرام نے صحیح قرار دیا ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے اس موضوع کی صحیح ترین
[1] بلوغ الأماني شرح مسند أحمد (۲؍ ۷۶)