کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 392
تائید کی ہے۔ قضیب کو دھونے کے سلسلے میں بعض ما لکیہ و حنابلہ نے دھونے کے لفظ کی حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے استیعاب کو واجب قرار دیا ہے، لیکن جمہور اہلِ علم نے معنیٰ کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے استیعاب کو واجب نہیں کہا، کیوں کہ اسے دھونے کا موجب ایک چیز کا خروج ہے، لہٰذا اس کے خروج کی جگہ سے دوسرے حصے تک تجاوز کرنا واجب نہیں ہے۔[1] اس کی تائید اسماعیلی کی روایت کے ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے: (( فَقَالَ: تَوَضَّأْ وَاغْسِلْہُ )) ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وضو کرو اور (پہلے) اس (مذی) کو دھو دو۔‘‘ (( إِغْسِلْہُ )) میں ہا کی ضمیر مذی کی طرف عائد ہے اور انہی احادیث سے مذی کی نجاست پر بھی استدلال کیا گیا ہے۔ -6 ودی: وہ گاڑھا، لیس دار اور سفید مادہ جو پیشاب سے متصل پہلے یا بعد میں دو ایک قطر ے کی شکل میں خارج ہوتا ہے، اسے ’’ودی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے نکلنے پر بھی غسل کرنا واجب نہیں ہوتا، بلکہ ائمہ و فقہا نے اسے بھی مذی کے حکم میں شمار کیا ہے اور بالاتفاق اس پر استنجا اور وضو ہی کافی ہے۔[2] سنن کبریٰ بیہقی اور سننِ اثرم میں بعض آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھی پتا چلتا ہے کہ ودی پر صرف استنجا اور وضو ہی کافی ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انھوں نے منی، مذی اور ودی کے بارے میں فرمایا: ’’فَالْمَنِيُّ مِنْہُ الْغُسْلُ، وَمِنْ ھٰذَیْنِ الْوُضُوْئُ، یَغْسِلُ ذَکَرَہٗ وَیَتَوَضَّأُ‘‘ ’’خروجِ منی پر تو غسل واجب ہے اور ان دونوں یعنی مذی و دوی پر قضیب کو دھونا اور وضو کرنا ہے۔‘‘ دوسرا اثر حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ہے، جس میں وہ فرماتے ہیں: ’’أَلْوَدِيُّ الَّذِيْ یَکُوْنُ بَعْدَ الْبَوْلِ، فِیْہِ الْوُضُوْئُ‘‘[3]
[1] فتح الباري (۱؍ ۳۸۰) [2] المجموع للنووي (۲؍ ۱۵۲) اور فتاویٰ علماے حدیث (۱/ ۴۵) ملاحظہ فرمائیں۔ [3] بلوغ الأماني شرح و ترتیب مسند أحمد (۲؍ ۷۶) سنن أثرم بحوالہ المغني (۱؍ ۲۳۳) بتحقیق الترکی۔