کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 387
کے لیے اس سلسلے میں ضرورت سے زیادہ شرمیلا پن مناسب ہے۔ شرم و حیا اور علم: شرم و حیا کی حدود کو اتنا بھی تنگ نہ کر دیا جائے کہ مسائلِ دین ہی اوجھل رہ جائیں۔ البتہ بعض مواقع پر تو شرم و حیا قابلِ تعریف ہے، جیسے اکابرین اور بڑوں کے سامنے احتراماً حیا کرنا، جو ایک شرعی مسئلہ ہے۔ وہ حیا مفردات القرآن میں امام راغب اصفہانی کے بقول ’’انقباض النفس عن القبیح‘‘ ہے کہ برائی سے نفسِ انسانی جو انقباض سامحسوس کرتا، اسے حیا کہا جاتا ہے۔ آگے فرماتے ہیں: ’’وَھُوَ مِنْ خَصَائِصِ الْإِنْسَانِ لِیَرْتَدِعَ عَنْ إِرْتِکَابِ کُلِّ مَا یَشْتَھِيْ، فَلَا یَکُوْنَ کَالْبَھِیْمَۃِ وَھُوَ مُرَکَّبٌ مِنْ جُبْنٍ وَعِفَّۃٍ فَلِذٰلِکَ لَا یَکُوْنُ الْمُسْتَحْيِ فَاسِقاً‘‘ ’’یہ حیا تو انسان کے خصائص میں سے ہے، تاکہ وہ ہر نفسانی خواہش کی تکمیل و ارتکاب سے رکا رہے اور کہیں حیوان نہ بن جائے۔ یہ شرعی حیا بزدلی اور پاکیزگی کا مجموعہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حیا دار شخص فاسق (کبائر کا ارتکاب کرنے والا اور کھلے عام برائی کرنے والا) نہیں ہوتا۔‘‘ امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’إِنَّ الْحَیَائَ یَمْنَعُ صَاحِبَہٗ مِنَ ارْتِکَابِ الْمَعَاصِيْ کَمَا یَمْنَعُ الْإِیْمَانُ‘‘ ’’حیا بھی انسان کو گناہوں کا ارتکاب کرنے سے اُسی طرح روکتی ہے، جیسے ایمان روکتا ہے۔‘‘ صحیح بخاری و مسلم اور موطا امام مالک میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: (( اَلْحَیَائُ مِنَ الْإِیْمَان )) [1]’’حیا ایمان کا جزو ہے۔‘‘ سنن ابن ماجہ میں ہے: (( اَلْحَیَائُ شُعْبَۃٌ مِنَ الْإِیْمَانِ )) [2] ’’حیا ایمان کا ایک شعبہ ہے۔‘‘
[1] صحیح البخاري مع الفتح (۱؍ ۷۴) صحیح مسلم (۱؍ ۲؍ ۶) صحیح سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۱۰۹) الموطأ مع المسوی (۲؍ ۴۶۱) باب فضل الحیاء۔ [2] سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۵۸)