کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 383
(( لَا یَنْفَتِلُ، لَا یَنْصَرِفُ حَتَّیٰ یَسْمَعَ صَوْتاً أَوْ یَجِدَ رِیْحًا )) [1] ’’وہ اس وقت تک نماز چھوڑ کر نہ جائے، جب تک وہ آواز نہ سن لے یا بُو نہ پائے۔‘‘ ایسے ہی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم، سنن ابی داود اور ترمذی میں مروی ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (( إِذَا وَجَد أَحَدُکُمْ فِيْ بَطْنِہٖ شَیْئًا فَأَشْکَلَ عَلَیْہِ أَخَرَجَ أَمْ لَا؟ فَلَا یَخْرُجَنَّ حَتَّیٰ یَسْمَعَ صَوْتًا أَوْ یَجِدَ رِیْحًا )) [2] ’’جب تم میں سے کوئی شخص اپنے پیٹ میں کچھ پائے اور اس کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہو جائے کہ ہوا نکلی ہے یا نہیں؟ تو اس وقت تک (نماز سے) ہرگز نہ نکلے، جب تک آواز نہ سن لے یا بُو نہ پائے۔‘‘ ان دو نوں احادیث میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خروجِ ہوا کا یقین کر لینے تک نماز نہ چھوڑ نے کا حکم فرمایا ہے کہ صرف معمولی شک گزرنے سے ایسا نہ کرے۔ گویا جب تک وضو کے ٹوٹ جانے کا پختہ یقین نہ ہو جائے، اس کی نماز صحیح ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے شرح صحیح مسلم میں کہا ہے کہ یہ حدیث اس مسئلے میں اصل ہے کہ اشیا اپنی اصل ہی پر رہتی ہیں، جب تک کہ اس کے خلاف (اصل سے ہٹ جانے) کا پختہ یقین نہ ہو جائے اور محض شک کا واقع ہو جانا مضر نہیں ہے۔ جمہور علما نے اسی حدیث کو اختیار کیا ہے۔[3] ان احادیث سے مرضِ وسواس میں مبتلا لوگوں کے لیے بھی صاف علاج اور عمدہ حل نکل آیا ہے کہ وہ محض وسواس اور شک پر بنیاد بنا کر نماز نہ چھوڑیں اور وضو کرنے نہ چل نکلیں، بلکہ یقین پر بنیاد رکھیں۔ فتح الباری میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تو مذکورہ حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ بعض لوگوں
[1] صحیح البخاري مع الفتح (۱؍ ۲۳۷) صحیح مسلم مع شرح النووي (۴؍ ۵۱) صحیح سنن أبي داود، رقم الحدیث (۱۶۳) صحیح سنن الترمذي (۶۵) صحیح النسائي (۱۵۴) سنن ابن ماجہ (۵۱۳) صحیح ابن خزیمۃ (۱۰۱۸) جامع الأصول (۸؍ ۱۰۷) [2] صحیح مسلم مع شرح النووي (۴؍ ۵۱) صحیح سنن أبي داود، رقم الحدیث (۶۳) صحیح سنن الترمذي (۶۵) جامع الأصول (۸؍ ۱۰۷) [3] فتح الباري (۱؍ ۲۳۸) و شرح صحیح مسلم للنووي (۲؍ ۳؍ ۴۹۔ ۵۰)