کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 380
{اَوْجَآئَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ} ’’یا کوئی تم میں سے بیت الخلاء سے ہو کر آیا ہو۔‘‘ ظاہر ہے کہ رفعِ حاجت پیشاب و پاخانہ ہی سے کنایہ ہے۔ ان دو نوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور فراغت کے بعد نماز کے لیے استنجا اور وضو کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ ’’مَا خَرَجَ مِنَ السَّبِیْلَیْنِ‘‘ میں سے ان دونوں چیزوں کے ناقضِ وضو ہونے کا ثبوت حدیثِ شریف میں بھی مذکورہے، چنانچہ سنن ترمذی، نسائی، صحیح ابن خزیمہ اور مسندِ احمد میں حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: (( کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَأْمُرُنَا إِذَا کُنَّا سَفْراً أَنْ لَّا نَنْزِعَ خِفَافَنَا ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ وَلَیَالِیْھِنَّ إِلَّا مِنْ جَنَابَۃٍ وَلٰکِنْ مِنْ غَائِطٍ وَبَوْلٍ وَنَوْمٍ )) [1] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفر کے دوران میں ہمیں یہ حکم فرمایا کرتے تھے کہ ہم اپنے موزوں کو تین دن اور تین راتیں پاخانہ، پیشاب اور نیند کی بنا پر نہ اتارا کریں، ہاں اگر جنابت ہو تو پھر اتارلیں۔‘‘ اس حدیث میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین نواقضِ وضو شمار کیے اور بتایا ہے کہ ان سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، لیکن اگر کسی نے موزے پہنے ہوں تو وضو ٹوٹ جانے کے باوجود موز ے اتار کر پاؤں دھونے کی ضرورت نہیں، بلکہ ان پر مسح کر لینا ہی کا فی ہے۔ ہاں اگر جنابت ہوجائے تو پھر موزوں کا اتارنا ضروری ہو جاتاہے۔ اس حدیث کو موزوں پر مسح کرنے کے مسائل کے ضمن میں بھی ذکر کیا جاچکا ہے اور یہاں ان دونوں نواقضِ وضو پر استدلال کے لیے اسے دوبارہ ذکر کر دیا ہے۔ سلس البول: یہیں ایک دوسرا مسئلہ بھی حل کرتے جائیں اور وہ ہے: سلس البول کا مسئلہ۔ اگر کسی کو سلس البول کی بیماری ہو، یعنی پیشاب کے قطر ے مسلسل گرتے رہتے ہوں تو وہ نماز کیسے ادا کرے ؟ اس سلسلے میں اہلِ علم نے لکھا ہے کہ نماز تو معاف نہیں ہے۔ ایسے بیمار لوگ انڈر ویئر استعمال کریں، وضو
[1] صحیح سنن الترمذي، رقم الحدیث (۸۴) صحیح سنن النسائي، رقم الحدیث (۱۲۲) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۴۷۸) مسند أحمد (۴؍ ۲۳۹۔ ۲۴۰) الفتح الرباني (۲؍ ۷۳، ۷۴) و نقل تصحیح ابن خزیمۃ و الترمذي و تحسین البخاري للحدیث۔ مشکاۃ المصابیح (۱؍ ۱۶۱۔ ۱۶۲)