کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 371
راوی حسن بن عمار سخت ضعیف ہے۔[1] ’’بلوغ المرام‘‘ میں موصوف نے اسی روایت کو نقل کر کے اس کی سند کے سخت ضعیف ہونے کا بھی تذکرہ کیا ہے۔[2] ’’سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ و الموضوعۃ‘‘ (۱/ ۴۲۳ ، ۴۲۴) میں علامہ البانی نے امام دار قطنی کے حسن بن عمارہ کو ضعیف کہنے کے الفاظ ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ صرف ضعیف ہی نہیں، بلکہ اس سے بڑھ کر ہے، حتیٰ کہ شعبہ نے اس راوی کے بارے میں کہا ہے کہ وہ جھوٹ بولتا تھا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے استاذ علی بن مدینی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ وہ حدیثیں گھڑاکرتا تھا ۔ امام احمد رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس کی بیان کردہ احادیث من گھڑت ہیں۔ یہی وجہ کہ اس حدیث پر موضوع یعنی خود ساختہ اور مَن گھڑت ہونے کاحکم لگا یا گیا ہے، لہٰذا اس سے استدلال جائز نہ رہا۔ سنن بیہقی میں حسن بن عمارہ والی سند سے ہی ایک اور روایت مرفوعاً مروی ہے، جسے نقل کر کے خود امام بیہقی نے لکھا ہے کہ حسن بن عمارہ قابلِ حجت نہیں، گویا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً یا موقوفاً کسی طرح بھی یہ حدیث صحیح ثابت نہیں ہے۔[3] اس مرفوع اور موقوف حدیث کے علاوہ اسی مفہوم کے بعض آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی مروی ہیں، مثلاً سنن دارقطنی میں ایک اثر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، مگر اس کی سند میں حجاج بن ارطاۃ جیسا معروف متکلم فیہ راوی اور حارث بن اعور بھی ہے، جس کی وجہ سے وہ ضعیف ہے۔ سنن دار قطنی میں حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے بھی ایک اثر مروی ہے کہ وہ ہر نماز کے لیے الگ الگ تیمم کیا کرتے تھے اور امام قتادہ رحمہ اللہ اسی کا فتویٰ دیا کرتے تھے، جب کہ امام قتادہ رحمہ اللہ اور حضرت عمرو رضی اللہ عنہ کے مابین ارسال ہے، یعنی اوّلاً یہ اثر موقوف ہے، ثانیاً مرسل بھی ہے۔ سنن بیہقی میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی ایک اثر مروی ہے، جس میں حضرت نافع بیان کرتے ہیں: ’’یَتَیَمَّمُ لِکُلِّ صَلَاۃٍ وَإِنْ لَّمْ یُحْدِثْ‘‘
[1] التلخیص الحبیر (۱؍ ۱؍ ۱۵۵) [2] بلوغ المرام مع السبل السلام (۱؍ ۱؍ ۱۰۰) [3] سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ (۱؍ ۴۲۳، ۴۴۴)