کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 370
’’قرآنِ کریم (سورۃ المائدہ، آیت: ۶) میں جو وضو کے لیے {اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ} کے الفاظ ہیں، ان سے مراد نماز کے لیے کھڑ ے ہونا نہیں، بلکہ نماز کے لیے کھڑے ہونے کا ارادہ کرنا ہے، جو نماز کے وقت میں بھی ہوسکتا ہے اور نماز کے وقت سے قبل بھی اور وقتِ نماز ہونے کی شرط پر دلالت کرنے والا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔‘‘[1] گویا پانی نہ ہونے کی شکل میں جب چا ہیں تیمم کرلیں اور تلاوت کریں یا نفلی نماز ادا کریں یا فرائض ادا کریں، وضو کی طرح اس میں بھی وسعت ہے۔ تیمم سے صرف ایک نماز اور اس کے دلائل کا جائزہ: یہاں مناسب ہوگا کہ ان بعض اہلِ علم کے دلائل بھی ذکر کر دیے جائیں، جن کے نزدیک ایک مرتبہ کیے گئے تیمم سے صرف ایک ہی وقت کی نماز ادا کی جاسکتی ہے یا قضا دی جاسکتی ہے ۔ ان کا استدلال ایک تو معجم طبرانی اور سنن دارقطنی و بیہقی کی اس حدیث سے ہے، جس میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا ارشاد ہے: (( مِنَ السُّنَّۃِ أَنْ لَّا یُصَلِّيَ الرَّجُلُ بِالتَّیَمُّمِ إِلَّا صَلَاۃً وَّاحِدَۃً ثُمَّ یَتَیَمَّمُ لِلصَّلَاۃِ الْأَخْرَیٰ )) [2] ’’سنت یہ ہے کہ تیمم سے کوئی شخص ایک نماز سے زیادہ نہ پڑھے اور دوسری نماز کے لیے پھر تیمم کرلے۔‘‘ یہ بات معلوم ہے کہ جب کوئی صحابی کسی معاملے کے بارے میں ’’مِنَ السُّنَّۃ‘‘ کہے تو اس کا حکم مرفوع حدیث کا ہوتا ہے، یعنی نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مبارک یا آپ کا ارشاد اس کی بنیاد ہوتا ہے اور وہ حدیث حجت ہوتی ہے۔ اگر یہ مذکورہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح ثابت ہوجائے تو پھر یہ اس مسئلے کی بہترین دلیل بن سکتی ہے، لیکن ایسا نہیں ہے، بلکہ محدثینِ کرام رحمہم اللہ نے اس حدیث کو ضعیف اور ناقابلِ حجت قرار دیا ہے۔ کبار محدّثین میں سے حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ’’التلخیص الحبیر‘‘ میں سنن دار قطنی و بیہقی کی طرف منسوب کیا اور لکھا ہے کہ اس کی سند کا ایک
[1] نیل الأوطار (۱؍ ۱؍ ۲۶۱) [2] سنن الدار قطني باب التیمم (۱؍ ۱۸۵) رقم الحدیث (۵)