کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 368
’’پاک مٹی مسلمان کا وضو ہے، چاہے وہ دس سال بھی پانی نہ پائے۔‘‘ اس حدیث کو امام المجد ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ’’منتقیٰ الأخبار‘‘ میں ’’باب الرخصۃ في الجماع لعادم الماء‘‘ کے تحت وارد کیا ہے اور ’’نیل الأوطار‘‘ میں اس کی شرح بیان کرتے ہوئے امام شوکانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: اسی موضوع کی ایک حدیث مسند بزار اور معجم طبرانی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے، جس کے بارے میں امام دار قطنی نے ’’علل‘‘ میں کہا ہے کہ اس کا مرسل ہونا ہی زیادہ صحیح ہے، البتہ شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔[1] امام شوکانی رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں: ’’یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ مٹی ذریعہ طہارت ہے اور جو شخص اس سے تیمم کرلے، اس کے لیے جائز ہے کہ ہر وہ کام کرے جو پانی سے وضو کرنے والا کرتا ہے، جیسے نماز ادا کرنا، تلاوت کرنا، مسجد میں جانا اور قرآنِ کریم کو چھونا وغیرہ۔ تیمم کا ان امور کے لیے کافی ہونا کسی محدود وقت کے لیے نہیں، بلکہ چاہے کتنی مدت بھی پانی نہ ملے، تیمم کفایت کرتا جائے گا اور دس سال کا ذکر اس بات کی دلیل نہیں کہ اس مدت کے بعد تیمم کافی نہیں ہوگا، کیوں کہ اس مدت کا ذکر تحدید و تقیید کے لیے نہیں ہوا، بلکہ مبالغے کے لیے آیا ہے۔‘‘[2] امام ابن قدامہ رحمہ اللہ نے فقہ مقارن کی بہترین کتاب ’’المغني‘‘ میں لکھا ہے کہ نوافل کے لیے کیے ہوئے تیمم سے فرائض بھی ادا کیے جاسکتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ اور امام احمد رحمہ اللہ کا یہی مسلک ہے۔[3] ’’المرقاۃ شرح المشکاۃ‘‘ میں ملا علی قاری حدیث: (( وَإِنْ لَّمْ یَجِدِ الْمَآئَ عَشْرَ سِنِیْنَ )) سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کسی نماز کے لیے تیمم کیا گیا اور وہ نماز بھی ادا کرلی، حتیٰ کہ اس نماز کا وقت بھی گزر گیا، اس کے باوجود اگر نواقضِ وضو و تیمم میں سے کوئی امر واقع نہ ہوا ہو تو وہ شخص
[1] مشکاۃ المصابیح (۱؍ ۱۶۵) و قواہ محقق الزاد (۱؍ ۲۰۱) [2] نیل الأوطار (۱؍ ۱؍ ۲۵۹) [3] المغني لابن قدامۃ (۱؍ ۳۲۶، ۲۵۲)