کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 364
الفاظ: {فَتُصْبِحَ صَعِیْداً} [الکھف: ۴۰] کی روسے مطلق زمین ہی ’’صعید‘‘ ہے۔ آگے فرماتے ہیں: ’’اہلِ لغت کا اس بارے میں کوئی اختلاف میرے علم میں نہیں ہے کہ ’’صعید‘‘ سے مراد روے زمین ہے۔‘‘ زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’زجاج کا قول میرے خیال میں امام مالک اور ان کے موافقین کا مذہب ہے، مگر یہ بات یقینی نہیں ہے۔‘‘ لیث کا کہنا ہے: جب کوئی باغیچہ ویران ہو جائے اور تمام پھول، پودے ختم ہو جائیں تو کہا جاتا ہے: ’’قَدْ صَارَتْ صَعِیْداً‘‘ ’’وہ صعید یعنی صاف زمین بن گیا ہے، جس میں کوئی درخت پودا نہیں ہے۔‘‘ ابن الاعرابی کا کہنا ہے: ’’الصعید: الأرضُ بعینہا‘‘ ’’صعید سے عین زمین مراد ہے۔‘‘ راستے کو بھی ’’صعید‘‘ کہا جاتا ہے، کیوں کہ وہاں بھی مٹی ہوتی ہے۔ مختلف علماے لغت کے اقوال کی روشنی میں یہ ابن منظور کی تشریح ہے، جب کہ دوسری معروف و متداول عربی ڈکشنری ’’القاموس المحیط‘‘ میں علامہ فیروز آبادی لکھتے ہیں: ’’اَلصَّعِیْدُ: اَلتُّرَابُ أَوْ وَجْہُ الْأَرْضِ‘‘[1] ’’صعید سے مراد مٹی یا روے زمین ہے۔‘‘ علامہ جوہری نے ’’الصحاح‘‘ میں صعید کا معنیٰ مٹی کیا ہے (اور اسے فراء کی طرف منسوب کیا ہے) جب کہ ثعلبی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ھُوَ وَجْہُ الْأَرْضِ لِقَوْلِہٖ تَعَالَیٰ: {فَتُصْبِحَ صَعِیْداً زَلَقًا}‘‘[2]
[1] القاموس المحیط (۱؍ ۱؍ ۳۱۸) [2] بحوالہ مختار الصحاح للرازي (ص: ۳۶۳ بیروت) و عون المعبود (۱؍ ۵۱۶)