کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 360
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کرید کر پھر اس پر ہاتھ مارے اور تیمم کیا، اس سے تو یہ معلوم ہوا کہ مٹی ہی سے تیمم ضروری ہے، کسی دوسری چیز سے نہیں۔[1] اسی طرح صحیح مسلم اور دیگر کتب میں حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ارشادِ نبوی ہے: (( وَجُعِلَ لَنَا الْأَرْضُ کُلُّھَا مَسْجِداً، وَجُعِلَتْ تُرْبَتُھَا لَنَا طَھُوْراً إِذَا لَمْ نَجِدِ الْمَآئَ )) [2] ’’ہمارے لیے ساری زمین کو مسجد بنا دیا گیا ہے اور پانی نہ ملنے کی صورت میں زمین کی مٹی ہمارے لیے ذریعۂ طہارت بنادی گئی ہے۔‘‘ گویا مسجد تو ساری ہی زمین ہے، البتہ طہارت کا ذریعہ صرف زمین کی مٹی ہے۔ بعض اہلِ علم نے لفظِ ’’تربۃ‘‘ پر اعتراض کیا ہے کہ یہ مٹی کے ساتھ خاص نہیں، جس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ صحیح ابن خزیمہ میں ’’تربۃ‘‘ کے بجائے ’’تراب‘‘ ہے، جو مٹی سے خاص ہے۔ مسند احمد اور سنن بیہقی میں حسن سند سے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: (( وَجُعِلَتِ التُّرَابُ لِيَ طَھُوْراً )) ’’مٹی میرے لیے طہارت بنائی گئی ہے۔‘‘ ان سب دلائل سے تیمم کے لیے مٹی شرط معلوم ہوتی ہے۔ دوسرا قول: اسی مسئلے کے بارے میں دوسرا قول یہ ہے کہ تیمم کے لیے صرف مٹی ہی شرط نہیں، بلکہ زمین کی جنس کے کسی بھی جزو یا حصے سے تیمم کیا جاسکتا ہے، وہ چونا ہو یا کلّر وشور ،پتھر ہویا سُرمہ اور ہڑتال ہویا ریت یا کچھ اور، شرط صرف یہ ہے کہ وہ زمین کا حصہ ہو۔ امام ابو حنیفہ، مالک، عطا، اوزاعی اور ثوری رحمہم اللہ کا یہی مسلک ہے۔[3] ان کا استدلال بھی آیتِ تیمم کے الفاظ {فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا} [النساء: ۴۳] کے لفظ ’’صعید‘‘ سے ہے، اس مسلک والے ’’صعید‘‘ سے زمین کے تمام اجزا مراد لیتے ہیں۔
[1] فتح الباري (۱؍ ۴۴۳) [2] صحیح مسلم مع النووي (۲؍ ۵؍ ۴) [3] عون المعبود (۱؍ ۵۲۶)