کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 353
علت اور اس میں پایا جانے والا اختلاف بھی ذکر کیا ہے۔ آگے حافظ عسقلانی رحمہ اللہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی دو ضربوں پر دلالت کرنے والی روایت نقل کی ہے اور لکھا ہے کہ اس پر کلام آگے چل کر آئے گا، پھر کہتے ہیں: ’’دو ضربوں والی روایت کے مخالف وہ احادیث ہیں، جو حضرت عمار رضی اللہ عنہ سے صحیحین میں ثابت ہیں۔‘‘ پھر آگے وہ احادیث بھی نقل کی ہیں۔ علامہ عبد الرحمن مبارکپوری ’’تحفۃ الأحوذي شرح جامع الترمذي‘‘ میں لکھتے ہیں کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے اس کلام سے معلوم ہواکہ مسند بزار کی حضرت عمار رضی اللہ عنہ والی روایت قابلِ حجت اور لائقِ استدلال نہیں ہے، اگرچہ اس کی سند حسن درجے کی ہے۔ جب کہ یہ طے ہے کہ کسی حدیث کی سند کا حسن یا صحیح ہونا، اس حدیث کے متن کے بھی حسن یا صحیح ہونے کو لازم نہیں ہوتا۔ آگے لکھتے ہیں کہ ’’آثار السنن‘‘ میں (مولانا شوق نیموی) نے مسندِ بزار والی حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ سے استدلال کیا ہے اور ’’الدرایۃ‘‘ سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا یہ قول کہ یہ حسن سند سے مروی ہے ، نقل کیا ہے ، مگر انہی کا بقیہ کلام نقل نہیں کیا، جس سے اس کا ضعیف ہونا ثابت ہوتا ہے۔ ایسے ہی ’’العرف الشذي‘‘ میں (علامہ انورشاہ کا شمیری رحمہ اللہ ) نے بھی کیا ہے: ’’وَلَیْسَ ھٰذَا مِنْ شَأْنِ أَھْلِ الْعِلْمَِ‘‘[1]’’جب کہ یہ اہلِ علم کی شان نہیں ہے۔‘‘ یہاں ایک بات یہ بھی ذکر کر دیں کہ موطا امام مالک کی فارسی شرح ’’مصفیٰ‘‘ میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے اس اثر کے تحت جس میں کہنیوں تک ہاتھ دھونے اور دو مرتبہ زمین پر ہاتھ مارنے کا ذکر ہے، لکھا ہے کہ اس اثر اور صرف کلائی کے جوڑ تک ہاتھ دھونے اور صرف ایک ہی مرتبہ زمین پر ہاتھ مارنے والی حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں باہم کوئی تعارض نہیں، بلکہ فعلِ ابن عمر رضی اللہ عنہما میں کمالِ تیمم ہے۔ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل میں تیمم کی کم ازکم مقدار مذکور ہے، جیسا کہ لفظ (( یَکْفِیْکَ )) سے معلوم ہوتا ہے، یہ بھی اسی طرح ہے، جس طرح وضو میں اصل تو تمام اعضا کو ایک ایک مرتبہ دھونا ہے اور کمالِ وضو تین تین مرتبہ دھونا ہے۔ صاحبِ ’’تحفۃ الأحوذي‘‘ موصوف کا یہ اقتباس نقل کرکے لکھتے ہیں:
[1] تحفۃ الأحوذي ۱؍ ۴۴۳۔ ۴۴۴۔ ۴۵)