کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 347
’’تمھارے لیے اپنے دونوں ہاتھوں سے یوں کر لینا ہی کافی تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک ہی مرتبہ اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر مارا۔‘‘ امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے ’’المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج‘‘ میں لکھتے ہیں کہ یہ حدیث ان لوگوں کے لیے دلیل ہے، جو تیمم میں منہ اور ہاتھوں کے لیے صرف ایک ہی مرتبہ زمین پر ہاتھ مارنے کو کافی قرار دیتے ہیں۔ آگے لکھتے ہیں: ’’دوسرے اس کا یہ جواب دے سکتے ہیں کہ یہاں صرف ہاتھ مارنے کی صورت یا طریقہ سکھلانا مراد ہے، پورے تیمم کا طریقہ بیان کرنا نہیں۔‘‘[1] امام صاحب کا یہ جواب نقل کر کے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان کے اس جواب پر تعاقب کیا گیا ہے (کہ وہ صحیح نہیں، کیوں کہ ) اس سارے واقعے کا سیاق اور تفصیل اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہاں مراد پورے تیمم کا طریقہ سکھلانا ہی ہے (نہ کہ صرف ہاتھ مارنے کا طریقہ سکھلانا) کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: (( إِنَّمَا کَانَ یَکْفِیْکَ )) ’’تمھارے لیے یہی کا فی ہے۔‘‘ کے الفاظ سے بظاہر یہی معلوم ہو رہا ہے (کہ یہاں تیمم کا مکمل طریقہ سکھلانا ہی مراد ہے) [2] اسی طرح سنن ابو داود، ترمذی، دارقطنی، بیہقی، مسند احمد، سنن دارقطنی اور معانی الآثار طحاوی میں صحیح سند سے مروی ایک حدیث ہے، جس میں حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (( اَلتَّیَمُّمُ ضَرْبَۃٌ لِّلْوَجْہِ وَالْکَفَّیْنِ )) [3] ’’تیمم کے لیے منہ اور ہاتھوں کے لیے صرف ایک ہی مرتبہ ہاتھوں کو زمین پر مارنا ہے۔‘‘ اس حدیث میں بھی صرف ایک ہی مرتبہ ہاتھوں کو زمین پر مارنے کاحکم ہے۔ دو مرتبہ زمین پر ہاتھ مارنا اور اس کے دلائل کا جائزہ: بعض روایات ایسی بھی ملتی ہیں، جن میں زمین پر دو مرتبہ ہاتھ مارنے کا ذکر ہے۔ ایک مرتبہ
[1] شرح صحیح مسلم للنووي (۲؍ ۴؍ ۶۱) [2] فتح الباري (۱؍ ۴۴۵۔ ۴۴۶) [3] صحیح سنن أبي داود، رقم الحدیث (۳۱۸) صحیح سنن الترمذي، رقم الحدیث (۱۲۵) إرواء الغلیل (۱؍ ۱۷۵) و صحیح الجامع، رقم الحدیث (۳۰۲۰)