کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 346
کی مشروعیت کو بیان کرنے کے لیے ایسا کیا تھا۔[1] ویسے بھی تیمم میں مٹی کے ساتھ منہ اور ہاتھوں کو خوب خاک آلود کرنا مقصود ہے نہ تمام اعضاے وضو کا استیعاب مطلوب ہوتا ہے کہ مٹی کا یہ مسح تمام اعضاے وضو پر کیا جائے، بلکہ یہ تو ایک علامت ہے، جسے وضو کے قائم مقام مقرر کیا گیا ہے۔ شارح بخاری لکھتے ہیں کہ اس پھونک مارنے سے مٹی کی تخفیف کے استحباب پر استدلال کیا گیا ہے اور ساتھ ہی یہ اس بات کی دلیل بھی ہے کہ جب ایک مرتبہ زمین پر ہاتھ مارنے سے ان پر لگی مٹی کو بھی پھونک مارکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کم کر دیا تھا تو معلوم ہوا کہ تیمم کرتے وقت مختلف اعضا کے لیے بار بار ہاتھوں کو زمین پر مارنا مستحب نہیں ہے۔[2] کیوں کہ بار بار زمین پر ہاتھ مارنا زیادہ مٹی لانے اور عدمِ تخفیف کو مستلزم ہے، لہٰذا تکرار کا استحباب ساقط ہوگیا۔ زمین پر ہاتھ مارنے میں تکرار: صرف ایک مرتبہ زمین پر ہاتھ مارنا جمہور اہلِ علم کا مسلک ہے۔[3] اس مسلک والوں کے استدلال کو دوسری کئی صریح اور صحیح احادیث سے بھی تقویت ملتی ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیمم کے لیے اپنے ہاتھ کو صرف ایک ہی مرتبہ زمین پر مارا تھا، بار بار نہیں، مثلاً تیمم کے طریقے کے بارے میں جو احادیث صحیح بخاری اور دیگر کتب کے حوالے سے گزری ہیں، ان سب سے بھی بظاہر ہاتھوں کو زمین پر ایک مرتبہ مارنے ہی کا ثبوت ملتا ہے، جب کہ صحیح بخاری و مسلم، سنن نسائی، صحیح ابی عوانہ، سنن دارقطنی، بیہقی اور مسندِ احمد میں حضرت عمار رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں صحیح مسلم کے سیاق کی روسے ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ یوں ہیں: (( إِنَّمَا کَانَ یَکْفِیْکَ أَنْ تَقُوْلَ بِیَدَیْکَ ھٰکَذَا، ثُمَّ ضَرَبَ بِیَدَیْہِ الْأَرْضَ ضَرْبَۃً وَّاحِدَۃً )) [4]
[1] فتح الباري (۱؍ ۴۴۳۔ ۴۴۴) المرعاۃ (۱؍ ۵۸۸) [2] فتح الباري (۱؍ ۴۴۴) [3] المرعاۃ (۱؍ ۵۸۸) [4] صحیح البخاري مع الفتح، رقم الحدیث (۳۴۷) صحیح سنن أبي داود، رقم الحدیث (۳۱۸) صحیح مسلم مع شرح النووي (۲؍ ۴؍ ۶۱) صحیح سنن النسائي، رقم الحدیث (۳۰۱، ۳۰۵، ۳۰۶، ۳۰۸) و الإرواء (۱؍ ۱۸۴)