کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 341
نے ان صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی کو نماز دہرانے کا حکم نہیں فرمایا۔ یہی وجہ ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ کے مشہور قول کے مطابق، اسی طرح امام مزنی، سحنون اور ابن منذر رحمہم اللہ کے نزدیک ایسی ادا کردہ نماز کو دوبارہ دہرانے کی کوئی ضرورت ہے نہ یہ واجب ہے، ان کی دلیل مذکورہ بالا حدیث ہی ہے، جب کہ امام ابو حنیفہ اور امام مالک رحمہ اللہ کے مشہور اقوال کے مطا بق ایسی صورتِ حال سے دو چار شخص کو نماز ہی نہیں پڑھنی چاہیے۔ البتہ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب، اسی طرح امام ثوری اور امام اوزاعی رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ اس شخص پر نماز کی قضا واجب ہے، لیکن امام مالک رحمہ اللہ سے ان کے مدنی رواۃ نے جو قول نقل کیا ہے، اس کے مطابق ان کے نزدیک ایسے شخص پر اس نماز کی قضا بھی واجب نہیں۔ گویا ایسے شخص کو وہ نماز ہی معاف ہے، وہ اس وقت ادا کرے نہ بعد میں قضا کرے، لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا فعل جسے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے برقرار رکھا، وہ ان حضرات کے اقوال کے بجائے نماز کو اس کے وقت پر وجوباً ادا کرنے اور پھر اسے نہ دہرانے کے قول والوں کی تائید کر رہا ہے۔ ایسی صورتِ حال سے دو چار شخص کی نماز کے حکم کے بارے میں یہ چار اقوال ہوگئے ہیں۔ جب کہ ’’المجموع شرح المہذب‘‘ میں امام نووی رحمہ اللہ نے ایک پانچواں قول بھی ذکر کیا ہے، جس کے مطابق ایسے شخص کا وقت پر نماز ادا کر لینا مستحب اور بعد میں اس صورتِ حال کے زائل ہونے پر اس نماز کو دہرا لینا واجب ہے۔[1] مذکورہ بالا حدیث ان پانچوں اقوال میں سے امام احمد، مزنی، سحنون اور ابن المنذر رحمہم اللہ کے قول کی موید ہے۔ دورِ حاضر کے معروف عالم و مفتی شیخ ابن باز کی نگرانی میں فتح الباری کی جو تحقیق ہوئی ہے، اس میں مذکورہ مقام پر ایک تعلیق یا حاشیہ ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مفتی صاحب موصوف اور ان کی نگرانی میں کام کرنے والے کبار علماے تحقیق کا مسلک بھی یہی ہے کہ ان حالات میں ادا کی گئی نماز کو دہرانا واجب نہیں، کیوں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم نہیں فرمایا۔[2] بعض مجبوری کے حالات میں ادا شدہ نماز کو وہ مجبوری زائل ہونے کے بعد دوبارہ ادا نہ کرنے یا بالفاظِ دیگر اعادہ یا دہرانے کے واجب نہ ہونے کی تائید تو اس حدیث سے بھی ہوتی ہے، جو
[1] المجموع شرح المہذب (۲؍ ۳۰۶) فتح الباري (۱؍ ۴۴۰) نیل الأوطار (۱؍ ۱؍ ۲۶۷۔ ۲۶۸) [2] حاشیۃ فتح الباري (۱؍ ۴۴۰)