کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 340
(( فَأَدْرَکَتْھُمُ الصَّلَاۃُ، وَلَیْسَ مَعَھُمْ مَآئٌ فَصَلُّوا [وَفي روایۃ: بِغَیْرِ وُضُوْئٍ] )) [1] ’’نماز کا وقت ہوگیا، جب کہ ان کے پاس پانی نہیں تھا، لیکن انھوں نے بلا وضو ہی نماز ادا کرلی۔‘‘ تیمم کا اس وقت تک ابھی حکم ہی نہیں ہوا تھا، لہٰذا ابن رشید کے حوالے سے صاحبِ فتح الباری نے لکھا ہے کہ ان کے پاس صرف پانی کا نہ ہونا اور ہمارے پاس پانی اور مٹی دونوں کا نہ ہونا ایک ہی حکم میں ہیں، اسی بات سے اس حدیث کی اس باب سے مناسبت بھی ظاہر ہو جاتی ہے، کیوں کہ حدیث میں مٹی کے فقدان کا ذکر نہیں، صرف پانی کے فقدان کا تذکرہ ہے۔ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ چاہے کہیں پانی اور مٹی دونوں ہی نہ ملیں، نماز پھر بھی واجب ہے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کے وجوب کے پیشِ نظر ہی نماز اداکی تھی۔ اگر ایسے حالات میں نماز ممنوع ہوتی، تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان صحابہ رضی اللہ عنہم کو ان کے اس فعل پر ٹوک دیتے، مگر ایسا نہیں ہوا اور ضرورت کے وقت نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی مسئلے میں شرعی حکم بیان کرنے میں تاخیر کرنا جائز ہے اور نہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شایانِ شان ہے۔[2] امام شوکانی رحمہ اللہ کے بقول صاحبِ ’’منتقیٰ الأخبار‘‘ ابو البرکات المجد ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور کثیر محققین کا مسلک یہی ہے کہ ان حالات میں بھی نماز کو ادا کرنا واجب ہے۔[3] فتح البای شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ امام شافعی، احمد اور امام مالک رحمہم اللہ خود تو نہیں، البتہ ان کے اکثر اصحاب اور جمہور محدثینِ کرام رحمہم اللہ کا مسلک یہی وجوب والا ہی ہے، لیکن نماز کو دہرانے کے واجب ہونے میں ان کا اختلاف ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کے اکثر اصحاب کے نزدیک ایسی نماز کو دہرانا واجب ہے کہ جب پانی یا مٹی دستیاب ہوں تو وضو یا تیمم کرکے وہ نماز دوبارہ ادا کرلے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ عذر شاذ و نادر واقع ہونے والا ہے، لہٰذا یہ نماز دہرانے کو ساقط نہیں کرتا۔ ان کی یہ بات محض ایک قیاس آرائی ہے، ورنہ حدیث میں مذکور اس واقعہ میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
[1] صحیح البخاري مع الفتح (۱؍ ۴۳۱۔ ۴۴۰) مختصر صحیح البخاري للألباني (ص: ۹۳۔ ۹۴) صحیح مسلم مع شرح النووي (۲؍ ۴؍ ۵۹) صحیح سنن أبي داود، رقم الحدیث (۳۰۹) صحیح سنن النسائي، رقم الحدیث (۲۲۹) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۵۶۸) المنتقی مع النیل (۱؍ ۱؍ ۲۶۷) [2] فتح الباري (۱؍ ۴۴۰) [3] نیل الأوطار (۱؍ ۱؍ ۲۶۷)