کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 338
اٹھ کر لا نہیں سکتا تو وہ مریض تیمم کر لے۔[1] مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت حسن بصری رحمہ اللہ اور امام ابن سیرین رحمہ اللہ سے مروی ہے: (( لَا یَتَیَمَّمُ مَا رَجَا أَنْ یَّقْدِرَ عَلَی الْمَآئِ فِي الْوَقْتِ )) [2] ’’جب تک کسی کو امید ہو کہ وقت نکلنے سے پہلے پہلے وہ پانی پالے گا، تب تک تیمم نہ کرے۔‘‘ لیکن بقول حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کا مفہوم بھی پہلی بات کے موافق ہی ہے، یعنی اگر اُسے ایسی امید نہ ہو تو پھر وہ بھی تیمم کرلے اور ان کا یہ قول بھی حضر میں مقیم شخص ہی کے بارے میں ہے۔ صحیح بخاری کے ترجمۃ الباب میں جہاں امام صاحب نے پانی نہ ملنے اور نماز کا وقت نکلنے کے خدشے سے حضر میں تیمم کا بیان شروع کیا ہے، وہیں لکھا ہے: ’’وَبِہِ قَالَ عَطَائٌ‘‘ ’’امام عطاء رحمہ اللہ کا قول بھی یہی ہے (کہ حضر میں بھی اس صورت میں تیمم جائز ہے)۔‘‘ صحیح بخاری کے ترجمۃ الباب میں تو یہ اثر تعلیقاً لا یا گیا ہے، جب کہ ’’فتح الباري‘‘ میں لکھا ہے کہ اسی اثر کو مصنف عبد الرزاق میں صحیح سند سے موصولاً اور ایسے ہی مصنف ابن ابی شیبہ میں بھی ایک دوسری سند سے روایت کیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ امام عطا سے منقول اثر میں نماز کو دُہرانے کے واجب ہونے کے بارے میں بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔[3] امام مالک رحمہ اللہ کا مسلک بھی ان آثار کی بنا پر یہی ہے کہ حضر میں تیمم سے ادا کی گئی نماز کو دہرانا واجب نہیں ہے۔ البتہ امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایسی صورتِ حال کبھی کبھار اور شاذ و نادر ہی رونما ہوتی ہے، لہٰذا نماز کو دہرا لینا چاہیے۔ امام ابو یوسف اور ان کے ساتھی امام زفر رحمہ اللہ نے تو کہا ہے: ’’ایسا شخص نماز ہی نہ پڑھے، اگرچہ وقت ہی کیوں نہ نکل جائے۔‘‘[4] لیکن ان کا یہ قول صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ کے آثار ہی نہیں، بلکہ دیگر ائمہ کے اقوال کے بھی مخالف اور انتہائی منفرد و غیرمستقیم ہے، بلکہ صحیحین، سنن ترمذی اور مسندِ احمد کی اُس حدیث کے بھی
[1] صحیح البخاري مع فتح الباري (۱؍ ۴۴) و التلخیص (۱؍ ۱؍ ۱۴۵) [2] فتح الباري (۱؍ ۴۴۱) [3] فتح الباري (۱؍ ۴۴۱) [4] فتح الباري (۱؍ ۴۴۲)