کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 336
شارح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ’’پانی کے فقدان کے تحت ہی پانی کے استعمال کی قدرت کا فقدان بھی آجاتا ہے کہ پانی تو موجود ہے، مگر سخت سردی یا ہلاکت کے خوف سے اس کے استعمال کی قدرت نہیں تو ان صورتوں میں مقیم کے لیے حضر میں بھی تیمم جائز ہے۔‘‘[1] اس کی دلیل صحیح بخاری و مسلم، سنن نسائی اور دارقطنی کی وہ حدیث ہے، جو صحیح مسلم میں تعلیقاً اور باقی کتب میں موصولاً حضرت ابو جہیم بن حارث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جس میں وہ فرماتے ہیں: (( أَقْبَلَ النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم مِنْ نَحْوِ بِئْرِ جَمَلٍ فَلَقِیَہٗ رَجُلٌ فَسَلَّمَ عَلَیْہِ فَلَمْ یَرُدَّ النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم حَتَّیٰ أَقْبَلَ عَلٰی الْجِدَارِ فَمَسَحَ بِوَجْھِہٖ وَیَدَیْہِ، ثُمَّ رَدَّ عَلَیْہِ السَّلَامَ )) [2] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (مدینے کے ایک مقام) بئر جمل کی طرف سے تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک آدمی ملا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلام کا جواب نہ دیا، حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دیوار کی طرف متوجہ ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چہرہ مبارک اور دونوں ہاتھوں کا مسح (تیمم) کیا اور پھر اس شخص کے سلام کا جواب دیا۔‘‘ یہاں یہ بات پیشِ نظر رہے کہ جو آدمی نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا اور اس نے سلام کیا، وہ خود راویِ حدیث حضرت ابو جہیم رضی اللہ عنہ ہی تھے، جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ کی روایت میں مذکور ہے۔ سنن دارقطنی کی روایت میں (( حَتَّیٰ أَقْبَلَ عَلٰی الْجِدَارِ )) کی بجائے (( حَتّٰی وَضَعَ یَدَہُ عَلٰی الْجِدَارِ)) کے الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ دیوار پر رکھے اور امام شافعی رحمہ اللہ والی روایت میں ہے: ((فَحَثَّہٗ بِعَصَا )) کہ دیوار کو اپنے عصا مبارک سے کریدا اور پھر اس پر مسح کیا۔[3] امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت پانی نہیں تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیمم کیا۔ امام نووی رحمہ اللہ کی یہ بات نقل کر کے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’فتح الباري‘‘ (۱/ ۴۴۳)
[1] صحیح البخاري مع فتح الباري (۱؍ ۴۴۱) [2] صحیح البخاري مع الفتح (۱؍ ۴۴۱) صحیح مسلم مع شرح النووي (۴؍ ۶۳، ۶۴) صحیح سنن أبي داود، رقم الحدیث (۳۱۹) صحیح سنن النسائي، رقم الحدیث (۳۰۰) المشکاۃ مع المرعاۃ (۱؍ ۵۹۷) التلخیص الحبیر (۱؍ ۱؍ ۱۴۹) [3] فتح الباري (۱؍ ۴۴۲) المرعاۃ (۱؍ ۵۹۷)