کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 333
اس پر واجب ہے کہ وہ نماز قطع کرے، وضو کرے اور پھر سے نماز پڑھے۔ ’’منتقیٰ الأخبار‘‘ میں ابو البرکات المجدابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس مسلک کے لیے جس حدیث سے استدلال کیا ہے، وہ سنن ابو داود، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، دارقطنی، مستدرک حاکم اور مسند احمد میں صحیح سند کے ساتھ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جس میں وہ بیان فرماتے ہیں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( إِنَّ الصَّعِیْدَ الطَّیِّبَ وُضُوْئُ الْمُسْلِمِ، وَإِنْ لَّمْ یَجِدِ الْمَآئَ عَشْرَ سِنِیْنَ، فَإِذَا وَجَدَ الْمَآئَ فَلْیُمِسَّ بَشَرْتَہٗ فَإِنَّ ذٰلِکَ خَیْرٌ )) [1] ’’پاکیزہ مٹی مسلمان کا وضو ہے، اگرچہ اسے دس سال بھی پانی نہ ملے۔ جب اسے پانی مل جائے تو اسے چاہیے کہ پانی ہی سے غسل و وضو کرے کہ اس کے لیے یہی بہتر ہے۔‘‘ اس حدیث کے آخری الفاظ (( فَإِذَا وَجَد الْمَآئَ فَلْیُمِسَّ بَشَرَتَہٗ فَإِنَّ ذٰلِکَ خَیْرٌ )) سے استدلا ل کیا گیا ہے کہ نماز مکمل ہونے سے پہلے اگر پانی مل جائے تو پھر اس نماز کو چھوڑ کر وضو کرنا اور نماز کو دہرانا واجب ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ ’’نیل الأوطار‘‘ میں لکھتے ہیں کہ یہ استدلال بالکل صحیح ہے، کیوں کہ یہ حدیث مطلق ہے، ہر اس شخص کے حق میں جس نے وقت گزرنے کے بعد پانی پایا یا جس نے دورانِ نماز ہی پانی پالیا یا نماز پڑھ چکنے، مگر وقتِ نماز باقی ہونے کے عرصے میں پایا۔ جب کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ والی حدیث اس شخص کے ساتھ خاص و مقید ہے، جسے نماز سے فارغ ہو چکنے، مگر اس کے وقت ہونے کے دوران ہی میں پانی مل گیا۔ لہٰذا وہ صورت حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ والی حدیث کی رو سے اعادے سے مستثنیٰ ہے، جب کہ دوسری دو صورتیں یعنی تیمم کر لینے، مگر نماز شروع کرنے سے پہلے پانی پالینے اور نماز شروع کر لینے، مگر اسے مکمل کرنے سے پہلے پانی پا لینے والی صورتیں حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ والی حدیث کے تحت آجاتی ہیں۔ ان میں نماز کا دہرانا ہی ضروری ہے۔[2] آیتِ تیمم کا سببِ نزول: آئیے اس کے بارے میں نازل ہونے والی آیت کا شانِ نزول اور مشروعیتِ تیمم کا اولین
[1] صحیح سنن أبي داود، رقم الحدیث (۳۲۱، ۳۲۲) صحیح سنن الترمذي، رقم الحدیث (۱۰۷) صحیح سنن النسائي، رقم الحدیث (۳۱۱) مشکاۃ المصابیح (۱؍ ۵۳۰) صحیح الجامع، رقم الحدیث (۱۶۶۷) [2] نیل الأوطار (۱؍ ۱؍ ۲۶۷)