کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 330
اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم ذَکَرْتُ ذٰلِکَ لَہٗ فَقَالَ: یَا عَمْرُوْ! صَلَّیْتَ أَصْحَابَکَ وَأَنْتَ جُنُبٌ؟ )) ’’ایک سخت سردی والی رات میں مجھے بد خوابی (احتلام کی وجہ) سے غسل کی ضرورت پیش آئی۔ سردی کی سخت شدت سے ڈر گیا کہ میں ہلاک نہ ہو جاؤں، لہٰذا میں نے تیمم کیا اور اپنے ساتھیوں کو فجر کی نماز پڑھا دی۔ جب ہم نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ واقعہ بتایا۔ واقعہ سن کر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمرو! تو نے اپنے ساتھیوں کو جنابت کی حالت ہی میں نماز پڑھا دی؟‘‘ حضرت عمرو رضی اللہ عنہ نے واقعہ ذکر کر کے بتایا کہ اس مجبوری کے وقت میں مجھے اللہ تعالیٰ کا وہ ارشاد یاد آگیا، جس میں فرمایا ہے: {وَ لَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا} [النساء: ۲۹] ’’اور اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو، کچھ شک نہیں کہ اللہ تم پر مہربان ہے۔‘‘ لہٰذا میں نے تیمم کر کے نماز پڑھا دی: (( فَضَحِکَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَلَمْ یَقُلْ شَیْئاً )) [1] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر ہنس دیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نہ کہا۔‘‘ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد المجدابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ’’منتقیٰ الأخبار‘‘ میں لکھا ہے کہ شدید سردی کے خوف سے بھی تیمم کا جواز ثابت ہے۔ دوسرے یہ بھی کہ جس نے پانی سے باقاعدہ وضو کیا ہو، اس کی نماز تیمم والے امام کی اقتدا میں جائز و صحیح ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے اس کی شرح ’’نیل الأوطار‘‘ میں لکھا ہے کہ ان حالات میں تیمم کے جواز کی اس حدیث میں دو دلیلیں ہیں: 1۔یہ واقعہ سن کر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تبسّم فرمانا اور خوش ہونا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ تبسم تو کسی کام کے جواز پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاموش رہنے سے بھی زیادہ قوی دلیل ہے، جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محض خاموشی بھی دلیلِ جواز ہے، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی ناجائز کام کو دیکھ کر خاموش نہیں رہ سکتے تھے۔ 2۔یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس فعل پر نکیر نہ کرنا۔ اگر یہ فعل ناجائز ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اسے ناجائز قرار
[1] صحیح البخاري مع الفتح (۱؍ ۴۵۴) صحیح سنن أبي داود، رقم الحدیث (۳۲۳) المنتقیٰ مع النیل (۱؍ ۱؍ ۲۵۸) الإرواء (۱؍ ۱۸۱۔ ۱۸۲) وصححہ