کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 325
چابیاں دی گئی ہیں۔ چوتھی یہ کہ میرا نام احمد رکھا گیا ہے اور پانچویں یہ کہ میری امت کو خیر الامم بنایا گیا ہے۔ اس آخری روایت کی سند میں ضعف واضطراب ہے، مگر مجموعی طور پر ان آٹھوں روایات والی حدیث صحیح بلکہ متواتر ہے۔[1] صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اللہ تعالیٰ کے ان خاص عطیات کو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ذکر کر دیا ہے، جو اُن سے پہلے دوسرے کسی نبی کو نہیں دیے گئے تھے، پھر ان عطیات میں امتِ اسلامیہ کے شرف کا پہلوبھی ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے یہ اور دیگر متعدد روایات جمع کر کے ان عطیاتِ الٰہیہ کی تعداد سترہ بیان کی ہے اور ابو سعید نیشاپوری کی آٹھ جلدوں پر مشتمل کتاب شرف المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ان خصائص کی تعداد ساٹھ ہے۔[2] بہر حال نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی انعامات الٰہیہ میں سے روے زمین کی مٹی کو طہارت کا ذریعہ بنایا جانا بھی شمار فرمایا، جو تیمم کی مشروعیت کا ثبوت ہے۔ 9۔سنن ابو داود، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، دارقطنی، مستدرک حاکم اور مسند احمد میں حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: (( إِنَّ الصَّعِیْدَ الطَّیِّبَ وُضُوْئُ الْمُسْلِمِ وَإِنْ لَّمْ یَجِدِ الْمَآئَ عَشْرَ سِنِیْنَ )) [3] ’’پاک مٹی مسلمان کا وضو ہے ، چاہے اسے دس سال بھی پانی میسرنہ آئے۔‘‘ سنن نسائی کے سوا دوسری کتب میں آگے یہ الفاظ بھی مذکور ہیں: (( فَإِذَا وَجَدَ الْمآئَ فَلْیُمِسَّہٗ بَشَرَتَہٗ، فَإِنَّ ذٰلِکَ خَیْرٌ )) [4] ’’جب اسے پانی مل جائے، تو پھر اس سے غسل و وضو کرنا چاہیے، کیوں کہ یہی بہتر ہے۔‘‘
[1] إرواء الغلیل (۱؍ ۳۱۷) و المنتقیٰ مع النیل (۱؍ ۱؍ ۲۶۲) [2] فتح الباري (۱؍ ۴۳۹) و نیل الأوطار (۱؍ ۱؍ ۲۶۲) [3] صحیح سنن أبي داود، رقم الحدیث (۳۲۱) صحیح سنن الترمذي، رقم الحدیث (۱۰۷) صحیح سنن النسائي، رقم الحدیث (۳۱۱) مسند أحمد (۵؍ ۱۵۵، ۱۸۰) موارد الظمآن، رقم الحدیث (۱۹۶) مشکاۃ المصابیح (۱؍ ۱۶۵) المنتقیٰ مع نیل الأوطار (۱؍ ۱؍ ۲۶۶، ۲۶۷) الإرواء (۱؍ ۱۸۱) [4] صحیح سنن أبي داود، رقم الحدیث (۳۲۱) سنن الترمذي مع التحفۃ (۱؍ ۳۸۷ ) صحیح الترمذي، رقم الحدیث (۱۰۷) و اللفظ لہ، و صحیح الجامع، رقم الحدیث (۱۶۶۷)