کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 320
پڑے ہوئے گرد و غبار پر ماریں، پھر دونوں ہاتھوں میں پھونک کر انھیں پہلے منہ پر اور پھر دونوں ہاتھوں کو باہم ایک دوسرے پر پھیر لیں۔ اس طرح صرف ایک ہی بار کر لینے سے تیمم ہو جاتا ہے۔ کہنیوں اور پاؤں وغیرہ پر ہاتھ پھیرنا اور سر یا کانوں کا مسح کرنا بھی ضروری نہیں، کیوں کہ یہ اندازِ طہارت ایک ’’علامت‘‘ ہے۔ اعضاے وضو کا استیعاب اس میں مقصود ہی نہیں ہے۔ تیمم کی مشروعیت میں حکمت: قبل اس کے کہ تیمم کی مشروعیت کے دلائل اور تیمم کے دیگر احکام و مسائل کا سلسلہ شروع کیا جائے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بعض مخصوص حالات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحمت اور شفقت کرتے ہوئے غسل و وضو کا علامتی قائم مقام جس تیمم کو قرار دیا ہے، اس کی مشروعیت میں پائی جانے والی حکمتیں اختصار سے ذکر کر دی جائیں۔ اگر بلا غسل و بلا وضو اور بلا تیمم ہی نماز وغیرہ کی اجازت دے دی جاتی تو اس کا ایک نقصان تو یہ ہوتا کہ ان اتفاقات سے طبائع ترکِ طہارت کی عادی ہو جاتیں اور اس سے بھی بڑھ کر یہ ہوتا کہ غسل و وضو کی پابندی سے اللہ تعالیٰ کے دربار کی حاضر کا جو اہتمام محسوس ہوتا اور اِس کی وجہ سے اِس حاضری کی عظمت و تقدس کا جو تصور ذہن پر چھایا رہتا ہے، وہ مجروح ہوتا۔ اس لیے حکمتِ الٰہی نے مجبوری کے ایسے حالات میں تیمم کو غسل و وضو کا قائم مقام بنا دیا ہے۔ اب مجبوری کی حالت میں غسل یا وضو کے بجائے آدمی نماز وغیرہ کے لیے تیمم کا اہتمام کرے گا تو اس کی عادت و ذہن پر کوئی غلط اثر نہیں پڑے گا۔ اس کی ایک حکمت تو بعض اہلِ علم نے یہ بیان کی ہے کہ پوری زمین کے دو ہی حصے ہیں: خشکی اور تری۔ ان دونوں میں سے ایک بڑے حصے کی سطح پانی ہے اور دوسرے حصے کی مٹی۔ اس لیے پانی اور مٹی میں ایک مناسبت ہے۔ نیز انسان کی ابتدائی تخلیق بھی پانی اور مٹی ہی سے ہوئی ہے اور مٹی ہی ایک ایسی چیز ہے، جسے انسان سمندر کے سوا ہر جگہ پاسکتا ہے، پھر مٹی پر ہاتھ مار کر منہ پر پھیرنے میں انکساری اور خاکساری کی بھی ایک خاص شان ہے، چونکہ انسان کا آخری ٹھکانا بھی مٹی اور خاک ہی ہے، مر کر اسے خاک ہی سے جا ملنا ہے، اس لیے تیمم میں موت اور قبر کی یاد بھی پائی جاتی ہے۔ تیمم کی مشروعیت میں یہ حکمتیں اور اسرار و رموز محسوس کیے جا سکتے ہیں۔[1]
[1] معارف الحدیث مولانا نعمانی (۳/ ۹۵۔ ۹۶) طبع لکھنؤ ۱۹۸۳ء