کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 314
(( أَصْبَحَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم فَدَعَا بِلَالاً، فَقَالَ: یَا بِلَالُ! بِمَ سبَقْتَنِيْ إِلٰی الْجَنَّۃِ؟ مَا دَخَلْتُ الْجَنَّۃَ قَطُّ إِلَّا سَمِعْتُ خَشْخَشَتَکَ أَمَامِيْ، إِنِّيْ دَخَلْتُ الْجَنَّۃَ الْبَارِحَۃَ فَسَمِعْتُ خَشْخَشَتَکَ أَمَامِيْ )) ’’ایک صبح نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہا کو بلایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اے بلال! کس عمل کی وجہ سے تم جنت میں جانے میں مجھ سے آگے تھے؟ میں جب بھی جنت میں داخل ہوا تو اپنے آگے تیرے چلنے کی آواز سنی۔ رات میں جنت میں داخل ہوا تو تیری چاپ اپنے آگے سنی۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے سونے کے بنے ہوئے بلند و بالا محل کو دیکھا اور پوچھا: (( لِمَنْ ہٰذَا الْقَصْرُ؟ )) ’’یہ محل کس کا ہے؟‘‘ انھوں نے کہا کہ ایک عربی کا ہے۔ میں نے کہا: میں عربی ہوں۔ یہ محل کس کا ہے؟ انھوں نے کہا: امتِ محمدیہ میں سے ایک آدمی کا ہے۔ میں نے کہا: میں محمد ہوں، یہ محل کس کا ہے؟ تو انھوں نے بتایا کہ یہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہے۔ پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے بتایا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے جب بھی اذان دی، دو رکعتیں ضرور ہی پڑھیں اور جب بھی بے وضو ہوا تو وضو کیا اور اپنے آپ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو رکعتیں ضروری سمجھیں۔ اس پر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تب تمھارا جنت میں جانے میں بظاہر مجھ سے سبقت لے جانا) انہی دو رکعتوں کی پابندی کی وجہ سے ہے۔[1] اس حدیث سے جہاں یہ بات واضح ہو ئی کہ مذکورہ واقعہ معراج کا نہیں، بلکہ خواب کاہے اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کئی بار پیش آیا ہے، وہیں یہ حدیث حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ کے جنتی ہونے کی بھی دلیل ہے، کیوں کہ امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح غریب کہا ہے اور محدث البانی جیسے ماہرِ فنِ حدیث کے نزدیک بھی یہ حدیث صحیح مسلم کی شرائط پر ہے اور صحیح ہے۔[2] صحیح بخاری و مسلم میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا وضو کر کے
[1] سنن الترمذي مع التحفۃ (۱۰؍ ۱۷۴۔ ۱۷۶) تخریج صلاۃ الرسول (ص: ۱۲۶) طبع اول۔ [2] إرواء الغلیل (۲؍ ۲۲۱)