کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 310
امام نووی رحمہ اللہ نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں سے پانی جھاڑنے کے الفاظ کی شرح کے دوران یہ بھی لکھا ہے کہ یہ الفاظ غسل و وضو کے بعد جسم سے پانی کو جھاڑ نے میں کوئی مضایقہ نہ ہونے کی دلیل ہیں اور اس سلسلے میں ہمارے اصحاب کے تین اقوال ہیں: 1۔مستحب یہ ہے کہ اسے ترک ہی کیا جائے، لیکن اسے مکروہ نہ کہا جائے۔ 2۔یہ مکروہ ہے۔ 3۔یہ مباح ہے، جس کا فعل ترک دونوں یکساں ہیں۔ اس تیسرے قول کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہی ظاہر تر اور مختا ر قول ہے، کیوں کہ صحیح حدیث میں اس کی اِباحت وارد ہوئی ہے اور اس کی مما نعت میں اصلاً کوئی دلیل ثابت نہیں ہے۔[1] ابن مسیب، مجاہد اور ابو العالیہ نے تولیے کے استعمال کو مکرہ شمار کیا ہے۔[2]جب کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں ابن مسیب اور زہری سے کراہت نقل کی ہے اور مکروہ شمار کرنے والوں کی دلیل یہ ذکر کی ہے: ’’إِنَّ الْوَضُوْئَ یُوْزَنُ‘‘[3] ’’وضو کا پانی تولا جا ئے گا۔‘‘ مگر یہ بات کئی وجوہات کی بنا پر اس کی دلیل نہیں بن سکتی: 1۔زیادہ سے زیادہ یہ امام زہری رحمہ اللہ کا موقوف قول ہے، حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا کوئی اثرِ صحابی نہیں۔ 2۔بظاہر اس سے مراد اس پانی کا تولا جانا ہے، جو وضو کے لیے استعمال ہوا ہو نہ کہ وہ پانی جو اعضاے وضو پر باقی ہے۔ 3۔امام ابن دقیق العید اور امام نووی رحمہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پانی کو جھاڑنے سے تولیے کے استعمال کے جواز کی دلیل لی ہے، کیوں کہ دونوں ہی پانی کے ازالے کا طریقہ ہیں اور جب جھاڑنا ثابت ہے تو پھر وضو کے پانی کا تولا جانا کوئی حیثیت نہیں رکھتا، بلکہ ثابت ہی نہیں ہوتا کہ اعضاے وضو پر رکا ہوا پانی تولا جائے گا۔
[1] شرح صحیح مسلم مع للنووي (۲؍ ۳؍ ۲۳۲) [2] عمدۃ القاري (۲؍ ۳؍ ۱۹۵) [3] سنن الترمذي مع التحفۃ (۱؍ ۱۷۷)