کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 309
سن چکے ہیں۔ اب اس حدیث سے استدلال کے بارے میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس حدیث میں بھی کراہت کی دلیل نہیں ہے، کیوں کہ یہ ایک واقعہ ہے، جس میں تولیا رومال یا کپڑا نہ لینے کے کئی احتمال ہیں، بلکہ ہوسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عدمِ جواز کے بجائے کسی اور وجہ سے وہ کپڑ ا نہ لیا ہو، جس کا کپڑ ے کے استعمال کی کراہت سے کوئی تعلق ہی نہ ہو، بلکہ اس کا تعلق اس کپڑے سے ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم جلدی میں ہوں یا کوئی دوسری وجہ ہو۔ مہلب کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کی برکت کو باقی رکھنے کے لیے یا تواضع اور انکساری کے پیشِ نظر کپڑ ا نہ لیا ہو یا وہ کپڑار یشمی ہو یا اس میں کوئی میل کچیل لگی ہو، جب کہ اسی حدیث کی مسند ابو عوانہ والی روایت میں اسماعیلی کے یہاں اعمش کے یہ الفاظ بھی موجود ہیں کہ میں نے یہ بات ابراہیم نخعی سے کہی، تو انھوں نے فرمایا: ’’لَا بَأْسَ بِالْمِنْدِیْلِ، إِنَّمَا رَدَّہٗ مَخَافَۃَ أَنْ یَّصِیْرَ عَادَۃً‘‘ ’’رومال کے استعمال میں کوئی مضایقہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کپڑا محض اس خدشے سے واپس کر دیا تھا کہ کہیں یہ عادت اور رواج ہی نہ بن جائے۔‘‘ علامہ تیمی نے اس حدیث کی شرح میں کہا ہے: ’’اس حدیث میں (کراہت کے بجائے) اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تولیا وغیرہ استعمال فرمایا کر تے تھے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اُم المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا تولیا یا کپڑا ہرگز نہ لا کر دیتیں۔‘‘ علامہ ابن دقیق العید فرماتے ہیں: ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے ہاتھوں سے پانی جھاڑنا، اس بات کی دلیل ہے کہ تولیے وغیرہ کے استعمال میں کوئی کراہت نہیں، کیوں کہ ہاتھوں سے جھاڑنا یا تولیے سے پونچھنا دونوں ہی پانی کے ازالے کے طریقے ہیں۔ یہی بات امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں بھی لکھی ہے۔‘‘[1]
[1] فتح الباري (۱؍ ۳۶۳) عمدۃ القاري (۲؍ ۳؍ ۱۹۴) شرح صحیح مسلم للنووي (۲؍ ۳؍ ۲۳۲) تحفۃ الأحوذي (۱؍۱۷۸) و الفتح الرباني (۱؍ ۲؍ ۱۳۷)