کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 306
اس حدیث کو علامہ عینی نے ’’عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري‘‘ میں صحیح قرار دیا ہے، جب کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’التلخیص الحبیر‘‘ میں اسے مرسل کہا ہے۔[1] 2۔سنن ترمذی و دارقطنی، مستدرک حاکم اور سنن بیہقی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: (( کَانَتْ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم خِرْقَۃٌ یَنْشِفُ بِھَا بَعْدَ الْوُضُوْئِ )) [2] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک کپڑا (تولیا یا رومال) تھا، جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کے بعد اعضاے وضو کو پونچھا کرتے تھے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے ’’لیس بالقائم‘‘ کہہ کر اور تلخیص میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی ضعیف قرار دیا ہے، لیکن امام حاکم رحمہ اللہ نے مستدرک میں اسے صحیح کہا ہے اور علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ نے ترمذی کی جو تحقیق کی ہے، اس میں تفصیل کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔[3] اس تفصیل سے معلوم ہواکہ وضو اور غسل کے بعد تولیے کا استعمال جائز ہے۔ امام ابن المنذر لکھتے ہیں کہ وضو کے بعد حضرت عثمان، حسن بن علی اور انس رضی اللہ عنہم نے تولیہ استعمال کیا ہے اور تابعین میں سے حضرت حسن بصری، ابن سیرین، علقمہ، اسود، مسروق اور ضحاک رحمہم اللہ نے اس کی رخصت دی ہے، جب کہ امام سفیان ثوری، احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ اور احناف تولیے وغیرہ کے استعمال میں کوئی مضایقہ نہیں سمجھتے۔[4] امام نووی رحمہ اللہ نے وضو اور غسل کے بعد تولیے کے استعمال میں علما کے اختلاف کو پانچ صورتوں میں تقسیم کیا ہے: 1۔پہلی رائے یہ ہے کہ استعمال نہ کیا جائے، مگر اسے مکروہ بھی نہ کہا جائے۔ 2۔دوسری رائے یہ ہے کہ اس کا استعمال مکروہ ہے۔ 3۔تیسری رائے یہ کہ یہ مباح ہے، جس کا فعل اور ترک برابر ہے۔
[1] التلخیص الجیر (۱؍ ۱؍ ۹۹) [2] سنن الترمذي مع التحفۃ (۱؍ ۱۷۴) سنن الدارقطني (۱؍ ۱؍ ۱۱۰) مستدرک الحاکم (۱؍ ۱۵۴) مشکاۃ المصابیح مع الرعاۃ (۱؍ ۴۸۳۔ ۴۸۴) تلخیص الحبیر (۱؍ ۱؍ ۹۹) [3] دیکھیں: مرعاۃ المفاتیح (۱؍ ۴۸۳، ۴۸۴) [4] دیکھیں: عمدۃ القاري (۲؍ ۳؍ ۱۹۵)