کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 298
بلکہ یہ زیادہ سے زیادہ محض بیانِ جواز کے لیے ہے۔[1] وضو کر لینے کے بعد کھڑے ہو کر وضو سے بچے ہوئے پانی سے دو ایک گھونٹ پینا بھی ان احادیث کی روسے جائز ہے، بلکہ ’’تحفۃ الأحوذي شرح سنن الترمذي‘‘ میں علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے عبد المالک کے حوالے سے لکھا ہے کہ وضو چونکہ عبادت ہے اور جس پانی سے یہ عبادت بجا لائی گئی ہے، اسی کے بچے ہوئے سے کچھ پی لینا باعثِ برکت ہے اور اس کا کھڑے ہو کر پینا بہتر ہے، تاکہ امت کو اس بات کی تعلیم دی جائے کہ اس موقع پر کھڑے ہو کر پینا جائز ہے۔[2] کھڑے ہو کر پانی پینے کے جواز اور ممانعت پر دلالت کرنے والی دونوں طرح کی احادیث وارد ہونے کی بنا پر اہلِ علم نے اس سلسلے میں متعدد آرا ظاہر کی ہیں، جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں، البتہ ’’فتح الباري‘‘ (۱۰/ ۸۱ تا ۸۵) اور ’’تحفۃ الأحوذي‘‘ (۱/ ۱۶۴، ۱۶۵، ۶/ ۳۔ ۷) میں اس کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔ مختصراً یہ کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے سب سے احسن، سلیم تر اور اعتراض سے بعید تر مسلک اما م خطابی اور ابن بطال رحمہ اللہ کی اس رائے کو قرار دیا ہے ، جس میں کہا گیا ہے کہ کھڑے ہو کر پانی پینے کی مما نعت والی احادیث کو نہی تنزیہی پر محمول کیا جائے اور دوسری احادیث کو بیانِ جواز پر ، جب کہ ایک رائے میں کھڑے ہو کر پینے کو طبی طور پر نقصان دہ قراردیا گیا ہے۔[3] شر م گاہ پر پانی کا چھینٹا مارنا: وضو کر کے جب کھڑے ہوں تو شرم گاہ پر پانی کا چھینٹا مارنا مشروع اور مفیدہے، اگرچہ اس موضوع کی احادیث میں یہ صراحت تو نہیں کہ یہ عورتوں کے لیے نہیں، بلکہ مردوں کے لیے ہے، لیکن اس چھینٹے کی وجہ اور فائدہ اس بات کا پتا دیتا ہے کہ یہ مردوں کے ساتھ خاص ہے، جیسا کہ تفصیل میں آگے آئے گا۔ اس چھینٹے کی مشروعیت پر دلالت کرنے والی احادیث تو متعدد ہیں، لیکن ان میں سے بعض کی سند ضعیف اور بعض کی حسن اور مجموعی حیثیت سے یہ حدیث صحیح کے درجے کو پہنچ جاتی ہے، چنانچہ ’’تحفۃ الأحوذي‘‘ میں علامہ الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
[1] دیکھیں: فتح الباري (۳؍ ۴۹۳) [2] تحفۃ الأحوذي (۱؍ ۱۶۴) [3] فتح الباري (۱۰؍ ۸۴)