کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 293
جائے اور وہ بھی وضو کرکے دوبارہ ادا کی جائے۔ انہی احادیث کی بنا پر کثیر اہلِ علم نے اعضاے وضو کو دھونے میں موالات یا تسلسل کو واجب قرار دیا ہے، لیکن بعض محققین اس کے وجوب کے قائل نہیں ہیں۔ وجوب کے قائلین میں سے جمہور اہلِ علم ہیں، جن میں امام اوزاعی، مالک، احمد بن حنبل اور ایک قول میں امام شافعی رحمہم اللہ بھی شامل ہیں، جب کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ایک دوسرے قول کے مطابق امام شافعی رحمہ اللہ وجوبِ تسلسل کے قائل نہیں ہیں۔ قائلینِ وجوب کا استدلال اس طرح ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ایک آدمی کے پاؤں پر درہم کے برابر جگہ خشک دیکھی تو اسے وضو کرنے کا حکم دیا۔ یہ نہیں فرمایا کہ صرف اتنی جگہ کو جا کر گیلا کر کے آجاؤ۔ اس کے علاوہ بعض اور احادیث بھی ہیں، جن سے وجوبِ تسلسل پر استدلال کیا جاتا ہے۔ جیسے سنن ابن ماجہ، دار قطنی، بیہقی، مسند ابو یعلی اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک حدیث مروی ہے، جس میں مذکور ہے: (( إِنَّہٗ صلی اللّٰه علیہ وسلم تَوَضَّأَ عَلٰی الْوَلَائِ، وَقَالَ: ھٰذَا وُضُوْئٌ، لَا یَقْبَلُ اللّٰہُ الصَّلَاۃَ إِلَّا بِہٖ )) [1] ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، جس کے دوران میں تسلسل قائم رکھا اور آخر میں فرمایا کہ وضو یہ ہے۔ ایسے وضو کے سوا اللہ تعالیٰ نماز قبول نہیں کرتا۔‘‘ اگر یہ روایت صحیح ہوتی تو وجوبِ تسلسل کی بڑی زبردست دلیل تھی، مگر امام ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ میں نے ابو زرعہ سے اس روایت کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے اسے بیکار، منکر اور ضعیف کہا ہے اور ایک دفعہ تو اسے بے اصل قرار دیا۔ امام دار قطنی نے اسے غرائبِ مالک میں بیان کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ وجوبِ موالات یا تسلسل اگرچہ جمہور اہلِ علم کا مسلک ہے، لیکن اس کے وجوب پر دلالت کرنے والی واضح اور صریح نص کوئی نہیں۔ امام ابن قدامہ کا رجحان وجوب کی طرف ہی ہے، جب کہ امام شوکانی اور امیر صنعانی رحمہ اللہ کے انداز سے عدمِ وجوب کا رجحان مترشح ہوتا ہے۔ بعض دیگر محققین کا میلان بھی عدمِ وجوب کی طرف ہی ہے۔[2]
[1] سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۴۱۹) الإرواء (۱؍ ۱۲۵) نیل الأوطار (۱؍ ۱؍ ۲۰۶) [2] اس موضوع کی تفصیل: المغني (۱؍ ۱؍ ۱۹، ۹۲) نیل الأوطار (۱؍ ۱؍ ۲۰۶مصر) سبل السلام شرح بلوغ المرام (۱؍ ۱؍ ۵۴ مصر) اور سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ (۱؍ ۴۶۶) میں دیکھی جاسکتی ہے۔