کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 290
یہاں یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ مسح کی گنجایش حاصل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ موزوں یا جرابوں کو اتارے نہیں، بلکہ مسلسل پہنے رہے۔ یہ نہیں کہ جب چاہے پہن لے اور مسح کرلے، کیوں کہ فتح الباری میں ’’فائدہ‘‘ کے تحت حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ’’اگر مسح کرنے کے بعد مسح کی مدّت ختم ہونے سے پہلے ہی کسی نے اپنے موزے اتار لیے تو امام احمد و اسحاق اور دوسرے توقیت کے قائل ائمہ کے نزدیک اسے دوبارہ وضو کرنا پڑے گا، جب کہ فقہاے کوفہ امام مزنی اور ابو ثور رحمہ اللہ کے نزدیک صرف دونوں پاؤں ہی دھولے۔ امام مالک و لیث کا بھی یہی قول ہے، جب کہ حضرت حسن بصری، ابن ابی لیلی اور علما کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ اس کے لیے پاؤں دھونا بھی ضروری نہیں۔‘‘ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور شیخ البانی نے اسی کی تائید کی ہے۔[1] انھوں نے اس شخص پر قیاس کیا ہے، جس نے سر کا مسح کیا، پھر منڈوا ڈالا تو اس کے لیے دوبارہ سر کا مسح کرنا واجب نہیں، لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس قیاس کو محلِ نظر قرار دیا ہے۔ شیخ ابن باز کی نگرانی میں فتح الباری کی جو تحقیق و تصحیح ہوئی ہے، اس میں حافظ ابن حجر کے اس تبصرے کی تائید کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ اسے سر کے مسح پر قیاس کرنا، اس لیے محلِ نظر ہے کہ سر اصل ہے، جس پر مسح کیا جائے گا، بال چاہے ہوں یا نہ ہوں، جب کہ موزوں پر مسح پاؤں کو دھونے کے عوض میں ہے، لہٰذا یہ دونوں امور الگ الگ ہوئے۔ اسی بنا پر راجح قول یہی ہے کہ اگر کوئی شخص موزے اتار دے تو اس کا وضو باطل ہوگیا اور اب صر ف پاؤں کا دھو لینا ہی کافی نہیں۔ کیوں کہ اس طرح موالات یا وہ تسلسل فوت ہوجاتا ہے، جو اعضاے وضو کو دھونے میں ضروری ہے۔[2] نواقضِ مسح: یہاں یہ بھی یاد رہے کہ نواقضِ مسح بھی وہی ہیں، جو نواقضِ وضو ہیں، یعنی جب وضو ٹوٹا تو ساتھ ہی مسح بھی ٹوٹ گیا۔ جب نیا وضو کریں تو نئے سرے سے مسح بھی کریں۔
[1] تمام المنّۃ (ص: ۱۱۴۔ ۱۱۵) [2] فتح الباري (۱/ ۳۱۰ حاشیہ)